بلوچستان میں خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے تو ووٹ کیسے ڈالیں گی؟

ہمیں شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں، اس کو ہم کیا کریں گے؟ یہ ہمارے کسی کام کا بھی نہیں۔ الٹا ہم شناختی کارڈ والوں کو پریشان کیا جاتا ہے کہ ووٹ دو۔ اب کون اتنی دور گھر کے سب کام چھوڑ کر ووٹ کے لیے جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شناختی کارڈ بنانے میں خواتین کی تصویر بنائی جاتی ہے اور ہم اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔

بلوچستان میں خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے تو ووٹ کیسے ڈالیں گی؟

دستاویزات میں درج معلومات کے مطابق بلوچستان کے دیہی علاقوں میں اکثر خواتین کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا، اس کی بنیادی وجہ شہری علاقوں سے دوری یا پھر سہولیات کا فقدان ہے۔ بعض علاقوں میں تو شناختی کارڈ بنوانے کا رجحان ہی نہیں۔

خضدار کے دیہی علاقہ لوہی بوز کی رہائشی 52 سالہ درخاتون نے آخری بار ووٹ 2013 میں دیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ 2013 میں دیا گیا ووٹ اس کا پہلا اور آخری ووٹ تھا۔ بیٹوں کے شدید اصرار پر ووٹ دینے کے لیے چلی گئی لیکن بہت تکلیف اٹھانی پڑی اور فائدہ کچھ نہیں ہوا۔ 2013 کے الیکشن میں صبح نماز کے بعد ایک مشکیزہ پانی اور ایک جانور سواری کے لیے لے کر ہم ووٹ دینے کے لیے روانہ ہو گئے۔ ہم چار ادھیڑ عمر خواتین اور گیارہ مرد تھے جو سب کے سب لوہی بوز دشت کے رہائشی تھے۔ ہمارا پولنگ سٹیشن وڈھ پلی ماس میں واقع ایک سرکاری عمارت میں تھا۔

پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے ہم پولنگ سٹیشن پر پہنچے تو پتہ چلا کہ ایک پولنگ ایجنٹ نے جھگڑا کر کے پولنگ بند کروا دی ہے۔ ان کی بڑی منت سماجت کی کہ ہمیں ووٹ دینے کے لیے چھوڑیں کہ ہمیں واپس دور جانا ہے لیکن وہ نہ مانے۔ کافی انتظار کے بعد ہمیں ایک بجے کے قریب ووٹ دینے کا موقع ملا۔ ووٹ تو ہم نے دے دیا لیکن میری چچیری بہن کو ووٹ نہیں دینے دیا گیا اور پولنگ ایجنٹ نے بولا کہ اس کا شناختی کارڈ ختم ہو چکا ہے۔ شروع میں تو ہم نہیں سمجھے اور شناختی کارڈ کے ختم ہونے پر پریشان ہو گئے لیکن پھر معلوم ہوا کہ یہ تو دوبارہ بھی بن جائے گا۔ ہم پولنگ سٹیشن سے دو بجے فارغ ہو گئے اور واپس اپنے گھر رات کو پہنچ گئے اور تھکاوٹ ایسی تھی کہ اگلے تین دن تک ہمیں بخار ہوتا رہا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، ہم نے ووٹ دینے سے توبہ کر لی۔ خیر اب تو عمر بھی اجازت نہیں دیتی کہ ہم پیدل کہیں جا سکیں۔

درخاتون کہتی ہے کہ 2013 میں ہمارے پورے گاؤں میں صرف چار عورتوں کے شناختی کارڈ بنے ہوئے تھے جبکہ ہمارے گاؤں میں 89 سے زیادہ خواتین ایسی تھیں جن کے شناختی کارڈ نہیں بنے تھے۔ ویسے ہمیں شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں، اس کو ہم کیا کریں گے؟ یہ ہمارے کسی کام کا بھی نہیں۔ الٹا ہم شناختی کارڈ والوں کو پریشان کیا جاتا ہے کہ ووٹ دو۔ اب کون اتنی دور گھر کے سب کام چھوڑ کر ووٹ کے لیے جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شناختی کارڈ بنانے میں خواتین کی تصویر بنائی جاتی ہے اور ہم اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ پہلے پھر بھی اچھا تھا کہ انگوٹھے کے نشان لے کر شناختی کارڈ بناتے تھے لیکن اب نہیں بنا رہے۔

34 سالہ زیب النسا بتاتی ہے کہ اس نے بھائی کی منت کی اور 2021 میں وڈھ بازار اس لیے گئی کہ بھائی ان کا شناختی کارڈ بنوائیں تاکہ اس کو بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے پیسے مل سکیں۔

زیب النسا ہنستے ہوئے بتانے لگی کہ اس نے بس بے نظیر انکم سپورٹ کی خاطر شناختی کارڈ بنوایا، ویسے ان کو ضرورت نہیں تھی۔ اگر بینظیر کے پیسے نہ ہوتے تو شاید ہم پوری زندگی شناختی کارڈ نہیں بنواتے۔

وہ کہتی ہے کہ اس بار شاید وہ ووٹ دینے جائے لیکن ان کے گاؤں سے بازار جانے والا راستہ سیلاب میں بہہ گیا تھا اور ابھی تک دوبارہ نہیں بنا ہے۔ پہلے بڑی گاڑی اور موٹر سائیکل کے ذریعے جاتے تھے لیکن اب پیدل جانے کے علاوہ اور کوئی دوسرا حل نہیں۔ شاید وہ ووٹ دینے نہیں جائیں لیکن ان کی خواہش ہے کہ وہ ایک بار ووٹ دینے جائیں اور دیکھیں کہ یہ کس طرح ہوتا ہے اور وہ میڈم بے نظیر کے لیے ووٹ دینا چاہتی ہے کیونکہ صرف وہ ہمارا خیال رکھتی تھی اور اس کے پیسے ہمیں مل رہے ہیں۔

دور دراز علاقوں کے ووٹرز کس طرح ووٹ دیں گے، انہیں ان کا بنیادی حق دینے کے لیے ضلعی انتظامیہ کس حد تک کوشش کرے گی اور یہ کس طرح یقینی بنایا جا سکے گا، ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ڈپٹی کمشنر خضدار محمد عارف زرکون سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دور دراز علاقوں کے لیے پہلے تو ہماری کوشش یہ ہو گی کہ ان کے پولنگ سٹیشن وہیں پر قائم ہوں، جتنا ممکن ہو سکے گا ہم انتظام کریں گے تا کہ ہر ایک کو ووٹ کاسٹ کرنے کا موقع ملے۔ باقی جہاں جس بھی سیاسی پارٹی کا اثر و رسوخ ہوتا ہے تو اس پارٹی کی ذاتی طور پر کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک پہنچائیں اور انہیں ترغیب دیں۔ باقی اس حوالے سے ایف سی اور آرمی کا تعاون بھی ہمارے ساتھ ہے۔ ضلعی انتظامیہ ان کے ساتھ مل کر حکمت عملی مرتب کر رہی ہے۔ خضدار سٹی میں تو زیادہ مسائل نہیں البتہ زہری اور وڈھ میں کچھ مشکلات درپیش ہوں گی تاہم وہاں بھی ہم تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر ان جگہوں کو دیکھ رہے ہیں اور زیادہ ووٹ کاسٹ کے لیے دستیاب وسائل کے تحت سہولیات فراہم کریں گے۔ کوشش ہے کہ آزادانہ طور پر ہر شہری حق رائے دہی کا استعمال کر سکے۔

سابق ایم پی اے میر اکبر مینگل کا کہنا ہے کہ ان کے ووٹرز دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں جہاں خواتین ووٹرز کے لیے مشکلات ہوتی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں خواتین کے شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوئے۔

الیکش کمیشن پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق خضدار میں ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 162,624 ہے۔ ان میں سے خواتین ووٹرز کی تعداد 67,773 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 94,851 ہے۔

محمد اقبال مینگل گذشتہ چھ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔وہ خضدار پریس کلب کے جنرل سیکریٹری ہیں اورچینل 92 نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔