"ہندوؤں کی نچلی ذاتیں ایک تو پسماندہ بہت ہیں، دولت، بنگلے اور گاڑیاں عدم موجود ہیں۔ دوسرا یہ تمام ذاتیں آپس میں بھی متحد نہیں ہو پا رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں سیاسی طور پر بھی اچھوت سمجھا جا رہا ہے"۔
یہ کہنا ہے رنشال داس کا، جو کہ صوبہ سندھ کے چھوٹے سے شہر نوکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 56 سالہ رنشال داس کولہی بطور سیاسی کارکن 1988ء سے جہد مسلسل میں ہیں۔ ان کی توجہ محرومیوں کو جھیلنے والے ہندوؤں کی نچلی ذاتوں کے حقوق حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔
یہ سال 2008ء تھا جب رنشال داس پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سے منسلک ہوئے۔ نچلی ذاتوں کے مصائب یوں تو ان گنت ہیں مگر سیاست کے قومی دھارے میں ان کی ناپید نمائندگی اس غریب سیاسی کارکن کو افسردہ کر دیتی ہے۔ "نچلی ذاتوں کو قومی سیاسی جماعتوں میں کیوں عہدے نہیں ملتے؟" کا جواب انہوں نے یوں دیا کہ "میرا خیال ہے کہ نظریاتی جماعتوں اور نظریاتی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت زور نہیں پکڑ رہی، ہماری شیڈیولڈ کاسٹ برادریوں کے ساتھ تو عام میل جول میں بھی چھوت چھات روا رکھی جاتی ہے لیکن یہ سلسلہ سیاست میں بھی زیرعمل ہے"۔
ہندو مذہب میں اونچی اور نچلی ذاتوں کا تصور صدیوں سے موجود ہے۔ تاہم انگریز دور حکومت میں ایک قانون لاگو کرتے ہوئے لگ بھگ 42 برادریوں کو شیڈیولڈ کاسٹ یعنی اچھوت قرار دیا گیا جن میں کولہی، میگھواڑ، بھیل، باگڑی، اوڈ، ماڑیچو، شکاری، کبوترا اور دیگر ذاتیں شامل ہیں۔
ان برداریوں کی 97 فیصد آبادی صوبہ سندھ میں رہائش پذیر ہے جبکہ کچھ برادریاں جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بھی آباد ہیں۔ یہی برادریاں بھارت میں بھی موجود ہیں جنہیں اب دلت لکھا اور کہا جاتا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد اونچی ذات والے لاکھوں ہندوؤں نے ہجرت کی مگر نچلی ذاتوں کے لوگ بہت ہی قلیل تعداد میں بھارت منتقل ہوئے۔ "ان کے مسائل پھر بھی وہی رہتے نقل مکانی کرتے بھی تو کیا ہوتا ان کے ساتھ چھوت چھات اور ظلم وستم تو بھارت میں کئی اعتبار سے زیادہ ہو رہا تھا"۔ یہ کہنا ہے خالد کنبھار کا، جو کہ نچلی ذاتوں سے جڑے موضوعات پر سندھی زبان میں دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ خالد کنبھار کا کہنا ہے کہ " اچھوت وہ لوگ ہیں جن کے حقوق کیلئے کسی سیاسی قراداد میں بھی کبھی جگہ میسر نہیں ہوئی ، جماعتوں کے عہدے ملنا تو بہت ہی بڑی بات ہے"۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ہندوؤں کی آبادی 44 لاکھ 44 ہزار 870 افراد پر مشتمل ہے جن میں شیڈیولڈ کاسٹ برادریوں کی آبادی 8 لاکھ 49 ہزار 614 افراد پر مشتمل ہے۔ صوبہ سندھ کے تھرپارکر، عمر کوٹ، بدین، میرپورخاص، ٹنڈو الیہار، سانگھڑ اور ٹنڈو محمد خان ایسے اضلاع ہیں جہاں نچلی ذاتوں کے لوگ کثرت سے آباد ہیں۔ جبکہ مٹھی اور عمر کوٹ اضلاع میں یوں تو ہندوؤں کی آبادی 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے جبکہ نچلی ذاتوں کی یہ ملکی اقلیت ان دو اضلاع میں عددی اعتبار سے مسلمانوں اور اونچی ذات کے ہندوؤں کی آبادی کے مقابلے میں اکثریت میں ہے۔ باوجود اس کے کہ اس اکثریت کے ووٹ تمام جماعتیں حاصل کرتی ہیں لیکن محروم در محروم لوگوں کو سیاسی جماعتوں میں عزت و تکریم نہیں مل پائی۔
پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر اقلیتوں کیلئے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بننے والے کرشن شرما کا کہنا ہے کہ "پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں میں شیڈیولڈ کاسٹ کی تعداد لگ بھگ 90 فیصد ہے جب کہ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ نچلی ذاتوں کی قیادت کو صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب نے مناسب مقام دیا گیا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ یہ جماعت گذشتہ 15 سال سے صوبے میں اقتدار حاصل کر لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے نچلی ذاتیں اپنے مسائل حل کرانے کی غرض سے اسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اس کے عوض ان کے لوگوں کو سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلی اور صوبائی کابینہ میں نمائندگی دے رہی ہے۔ جس طرف ان کے ووٹ جا رہے ہیں اس طرف سے انہیں نمائندگی مل رہی ہے۔ دیگر جماعتوں کو بھی اگر ان کے ووٹ ملیں گے تو وہ جماعتیں بھی انہیں نمائندگی دینے پر سوچیں گی"۔
کرشن شرما نے موقف دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ "شیڈیولڈ کاسٹ برادریوں کو سیاسی جماعتوں میں عہدے نہ ملنے کی بات محض پروپیگنڈہ ہے جبکہ یہ بھی سچ ہے کہ مقتدر ایوانوں میں نمائندگی یا تو مخصوص نشستوں پر ہی ملتی ہے یا پھر پارٹی فنڈ کےنام پر دیئے جانے والی بھاری رقوم کے عوض ہی کوئی عہدہ ملتا ہے۔عمر کوٹ میں کسی ایک ہندو یا نچلی ذات کے فرد کو ضلعی کونسل کی جنرل سیٹ کیلئے بھی ٹکٹ نہیں دیا جاتا حالانکہ اس ضلع میں اقلیتوں کی آبادی 51 فیصد ہے"۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی کرشنا کولہی سینیٹ آف پاکستان کی رکن ہیں، ان کے بھائی ویرجی کولہی وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خاص ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر کھٹومل جیون، انجنیئر گیانچند ایسرانی، پونجو بھیل، سریندر ولاسائی مقتدر ایوانوں کی رکنیت حاصل کرچکے ہیں۔ صوبے کی حکمراں جماعت کی اقلیتی ونگ اور حکومتی عہدے ہونے کے باوجود ان برادریوں کی فلاح و بہبود کی غرض سے ٹھوس اقدامات نہ ہونے کا شکوہ ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی سرگرم کارکن پشپا کماری کو بھی ہے۔
پشپا کماری کا کہنا ہے کہ"یہ درست ہے کہ نچلی ذاتوں کے افراد سینیٹر بھی بنے ہیں، صوبائی حکومت میں بھی شامل ہیں لیکن نچلی ذاتوں کے لوگوں کو وفاقی و صوبائی ملازمتوں کا جتنا حصہ ملنا چاہئے وہ نہیں دیا جاتا وجہ یہ ہے کہ اقلیتوں کیلئے مخصوص کوٹا دولتمند ہندو اثرورسوخ کی بناء پر بلاشرکت غیرے حاصل کر رہے ہیں، مردم شماری میں شیڈیولڈ کاسٹ افراد کی جداگانہ گنتی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ملازمتوں اور سیاسی نمائندگی کاکوٹا منصفانہ نہیں ہے"۔ پشپا کماری کا کہنا ہے کہ "نچلی ذاتوں کے لوگوںکو ہندوؤں کا فیوڈل کلاس آگے آنے نہیں دیتا محروم طبقات کو صرف نعرہ بازی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب تک تمام جماعتیں نچلی ذاتوں کے لوگوں کو موثر نمائندگی نہیں دیں گی تب تک ان محروم طبقات کے مسائل حل نہیں ہونگے"۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ نچلی ذاتوں کے لوگ اپنے بچوں کو شاذونادر ہی اسکول بھیجتے ہیں۔ ناخواندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے ان برادریوں میں سیاسی شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ ان کے ذرائع معاش غیرمنظم اور معمولی نوعیت والے ہیں جس کی وجہ سے ان کا رہن سہن وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی برادریوں کے لوگ ان کے ساتھ میل جول سے کتراتے ہیں۔ جبکہ یہ تمام نچلی ذاتیں آپس میں بھی متحد نہیں۔ اس بات کی تصدیق پشپا کماری نے بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ "بھیلوں کے گاؤں میں کولہی نہیں بستے۔ باگڑی باقیوں سے الگ رہتے ہیں اور میگھواڑ وں کے رواج اور رسمیں باقیوں سے الگ ہوتے ہیں ان کی محرومی کا ایک بڑا سبب ان کی ایک دوسرے سے دوری بھی ہے"۔
مصنف خالد کنبھار کہتے ہیں کہ "اچھوتوں کے پاس اتنے پیسے کہاں ہوتے ہیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے عہدے اور مقتدر ایوانوں کے ٹکٹ خرید سکیں۔ ان کو تو تحصیل سطح پر کونسلر کا ٹکٹ بھی نہیں دیا جاتا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو اقلیت در اقلیت ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ متحد نہیں ہیں، سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں، لیکن ان کے دیہاتوں میں اسکول کیوں کھولے نہیں جاتے ان کیلئے کوئی سرکاری منصوبے کیوں نہیں چلائے جاتے جو انہیں معاشی تنگدستی سےنکال سکیں۔ یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب وہ پورے سیاسی نظام میں موجود ہوںاور سیاسی جماعتیں ان سے چھوت چھات والا برتاؤ ختم کردیں "۔
نچلی ذاتوں کے مسائل کے حل کیلئے ایسی کوئی منظم تحریک تو برپا نہیں ہوسکی کہ جسے قومی میڈیا پر جگہ مل سکی ہو تاہم رنشال داس کولہی جیسے سیاسی کارکن اپنی برادریوں کے حقوق کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ حال ہی میں شیڈیول کاسٹ الائنس کی جانب سے حیدرآباد تک پیدل مارچ کیا گیا لیکن کسی بھی بڑی جماعت کے نامور سیاسی رہنما نے محروم لوگوں کے اس اجتماع میں شرکت کرنا یا خطاب کرنامناسب نہیں سمجھا۔ دوسری جانب معاشرے کے پڑھے لکھے افراد اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سیاسی جماعتیں اچھوتوں کو مناسب نمائندگی دیں تو ان کی آواز مستحکم اور ان کے مصائب کم ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔