خوشیاں بانٹنے کا نام عید ہے!

”عید“ غریبوں سے ہمدردی اور اپنوں سے صلہ رحمی کا دن ہے۔ یہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کے خاتمے اور حصول آزادی کے اس سلسلہ کی عملی جدوجہد کے عہد کا دن ہے۔ یہ دن دلوں سے نفرتوں کو مٹانے، روٹھے ہوئے چہروں کو منانے، غریبوں، مسکینوں کے کام آنے، بھائی چارے، محبت اور امن کا پیغام آگے بڑھانے سے منسوب ہے۔

خوشیاں بانٹنے کا نام عید ہے!

دنیا بھر کی سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے، جسے ہر مذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق مناتے ہیں۔ جس میں ”عیدالفطر“ ایک ایسا مذہبی تہوار ہے جو امتِ مسلمہ میں خاص مقام اور اہمیت کا حامل ہے۔ عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے، ماہِ صیام کے روزوں کی خوشی، قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، نزول قرآن کی خوشی، لیلۃ القدراور اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے رحمت و بخشش اور عذابِ جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر بھی کہا جاتا ہے۔ جس سے عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔

انہی وجوہات کی بناءپر اسے مومنوں کے لیے خوشی کا دن قرار دیا گیا ہے۔ آقائے دو جہاں رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے دعا مانگتے ہوئے دو عیدوں کا تحفہ امتِ مسلمہ کو دیا۔ مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو مسلمان عید الفطر مناتے ہیں۔ ”عید“ کے معنی خوشی اور ”فطر“ کے معنی کھولنا ہیں۔ یہ دن ماہِ صیام کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر منانے کا دن ہے۔ جسے امتِ مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دن دلوں سے نفرتوں کو مٹانے، روٹھے ہوئے چہروں کو منانے، غریبوں، مسکینوں کے کام آنے، بھائی چارے، محبت اور امن کا پیغام آگے بڑھانے سے منسوب ہے۔

ہمارے اردگرد بہت سے افراد /خاندان ایسے ہیں جن کے پاس عید کرنے تو دور دو وقت کی روٹی کے وسائل دستیاب نہیں۔

مالی طور پر آسودہ طبقات کے لیے عید واقعی ایک خوشی کا موقع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے اور بنیادی ضرورتوں تک سے محروم مسلمانوں کیلئے عید بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی کیونکہ انہیں عید کی خوشیاں منانے کیلئے مطلوبہ وسائل میسر نہیں ہوتے جبکہ اُن کے معصوم بچے یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔

یہ ظلم ہے کہ ہم خود تو عیش و عشرت کریں اور غریب بے بسی کی تصویر بنے رہیں۔ اسی لیے صدقہ ِ فطر مقرر کیا گیا۔ لیکن ہم حسب استطاعت نہیں دیتے۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ آخری ایام میں کم از کم فطرانہ ادا کیا جائے۔ کیا اس مہنگائی کے طوفان میں ایک غریب ہزار پندرہ سو میں خاندان کو عید کروا سکتا ہے؟ ہمیں دوسروں کا احساس کرنا چاہیے۔ جتنا اللہ تعالیٰ نے دِیا ہے اس حساب سے فطرانہ دیا جانا چاہیے تاکہ غربا ٗ مسکین ٗ نادار بھی شریک ہو سکیں۔

خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں۔ حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔ عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔ یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو۔

اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیوں شامل نہیں ہو سکتا غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گئیں۔ ”عید“ غریبوں سے ہمدردی اور اپنوں سے صلہ رحمی کا دن ہے۔ یہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کے خاتمے اور حصول آزادی کے اس سلسلہ کی عملی جدوجہد کے عہد کا دن ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو ابھی سے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکے۔ یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے۔ اللہ نے ہم کو دیا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے۔

عید کے روز دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں۔جن سے ماں باپ کی کوئی نافرمانی ہوئی ہے ان سے معافی مانگ لیں۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار محبت سے پیش آئیں۔  اپنی خوشی میں غریبوں، یتیموں، بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کریں اور سب کے ساتھ اپنی خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹیں۔ کیونکہ خوشی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اس کی چاشنی میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔