ننّھی مُنی خوشیاں، بقر عید اور دماغی صدمے کا احتمال

ننّھی مُنی خوشیاں، بقر عید اور دماغی صدمے کا احتمال
شاید ملک سے دور رہتے رہتے احساس ہی نہیں رہا کہ پاکستان میں لوگوں کو خوشی کے مواقع بڑی مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں اسی لئے ہم جب بھی کسی تہوار، تقریب اور اہم دن پر ہونے والی کئی روزہ پُرتعیش سرگرمیوں اور فضول خرچیوں پر سوال اٹھاتے ہیں تو ہمارے پرانے محلے کے ننھے بھائی جو اب ماشاء اللہ ایک کامیاب بزنس مین بن کر پُرثروت علاقوں میں رہائش اختیار کر چکے ہیں فوراً سینہ ٹھونک کر میدان میں اترتے ہیں۔ مثلاً ابھی پچھلی شب برات پر انہوں نے اپنے وسیع لان سے اڑتے آتشیں انار، راکٹ، ڈھبری اور پھلجھڑیوں کی تصاویر اس کیپشن کے ساتھ ارسال کیں کہ 'چند لاکھ خرچ کر کے اگر بچوں کو اس مذہبی تہوارکی اہمیت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے تو سودا برا نہیں'۔

چھوٹی عید پر انہوں نے عید کے تینوں دنوں میں صبح، دوپہر اور شام کے مختلف جوڑوں میں اپنے نو مختلف انداز بھیجتے ہوئے یہ لکھنا مناسب سمجھا؛ 'عید الفطر رمضان المبارک کے مہینے کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کا اپنے محبوب بندوں کو خاص تحفہ ہے۔ تم روکھے پھیکے انگلستان میں جلتے اور کڑھتے رہو!'

اس یومِ آزادی پر انہوں نے ایک فیملی فوٹو سے نوازا جس میں ان کے خاندان کے تمام افراد پاکستانی پرچم کے ہم رنگ لباس میں ملبوس، گھر کے کار پورچ میں کھڑی اس سبز جیپ کی طرف بڑھ رہے ہیں جس پر چاند ستارے کے پس منظر میں ملک کے سپہ سالار کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ عقب میں بنگلے کی اوپری منزل سے لٹکا وہ وسیع و عریض جھنڈا موجود ہے جس نے تقریباً پوری عمارت کو چھپایا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری تصویر میں ان کا گیارہ سالہ نونہال مُنا کلاشنکوف سے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے 14 اگست پر اپنے بھرپور جوش وخروش کا اظہار کر رہا ہے۔ ننھے بھائی نے تصویر پر یہ ایمان افروز پیغام لکھا؛ 'زندہ قومیں اپنے اہم دنوں اور ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتیں! تم مردہ دل انگریزوں کے ساتھ رہو اور بسو۔ لیکن اپنے بچوں کو آزادی کی نعمت اور قیمت سے واقف کرنا کبھی نہ بھولنا'۔

اب بڑی عید کی آمد پر پچھلی بقرعید ان کا بھیجا ہوا البم پھر کھول کر دیکھا۔ ہائی ڈیفی نیشن کیمرے سے لی ہوئی ان تصویروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر منظرمیں ابھی جان پڑ جائے گی۔ ایک تصویر بھورے رنگ کی حسین بچھیا کی ہے۔ درمیانہ قد و قامت لیکن جسم بھرا بھرا، سوہنی، من موہنی، معصوم سی صورت، بڑی بڑی آنکھیں۔ لگتا ہے کسی نے بڑی توجہ سے پالا ہوگا۔ پاؤں میں گھنگھرو۔ ساکت تصویر سے بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ ایک ادا سے آگے پیچھے ہوتی ہوگی تو 'تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے' والا ماحول بن جاتا ہوگا۔

دوسری تصویر میں دو صحت مند بکرے جن کی سفید کھال پر مہندی سے گلکاریاں کی ہوئی، سمارٹ، لمبے، پھرتیلے لیکن ضدی اور اڑیل۔ سینگوں پر سنہری روپہلی بیل بندھی، گلے میں لال، گلابی، سبز پٹے پڑے ہوئے۔

تیسری تصویر میں بچے بکروں، مینڈھوں اور دنبوں کی ریس کرا رہے ہیں۔ بیک گراؤنڈ میں ایک سیاہ چھیل چھبیلے بیل کو چار چار جوان بڑی مشکل سے سنبھالتے چلے جا رہے ہیں۔

چوتھی تصویر میں ایک بندھے ہوئے اونٹ کو نحر کیا جا رہا ہے۔ قصائی نے تلوار سے اونٹ کی گردن میں پہلا سوراخ کر دیا ہے جس سے خون کی دھاریں چاروں طرف کھڑے تماشا دیکھتے لوگوں پر گر رہی ہیں۔ ایک اور شخص کے ہاتھ میں تلوار نظر آ رہی ہے۔ اس کی شکل ننھے بھائی سے بہت مل رہی ہے۔ شاید ننھے بھائی ہی ہیں۔ یقیناً ننھے بھائی ہی ہیں۔ جب تک ہم پاکستان میں رہتے تھے اونٹ کی قربانی نا ہونے کے برابر تھی لیکن پچھلے پندرہ بیس برسوں میں جہاں گلی گلی اونٹ کے دودھ کی دکانیں کھل گئی ہیں وہیں اونٹ کی قربانی بھی مقبولِ عام ہو گئی ہے۔

آخری تصویر پر نظر پڑتے ہی ریڑھ کی ہڈی میں برف کی لہر دوڑ گئی، دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سفید برّاق جانور کی گردن کو ایک مضبوط ہاتھ نے کھینچ کر غیر فطری انداز میں کمر پر موڑ دیا ہے۔ سلیٹی رنگ کی چھوٹی سی چھری جس پر تازہ لگی دھار چمکتی دیکھی جا سکتی ہے، پھیری جا رہی ہے۔ کٹی ہوئی شہ رگوں سے لال لال خون کے فوارے ابل رہے ہیں۔ نرخرے سے بلبلے برآمد ہو رہے ہیں۔ خون کی لڑیاں سی کچے فرش پر بہہ نکلی ہیں۔ اس منظر کا سب سے ہولناک اور ناقابلِ یقین پہلو چھری پکڑے ہوئے ایک ننھا سا ہاتھ ہے جسے اس سے دگنے بڑے ہاتھ نے سختی سے تھاما ہوا ہے۔ نیچے تحریر سے اس کی تصدیق ہوتی ہے؛ 'منے میاں سنتِ ابراہیمیؑ ادا کرتے ہوئے'۔

رسمِ قربانی کی مذہبی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسے جس انداز میں پاکستان میں ادا کیا جاتا ہے وہ کم عمر بچوں کی شخصیت پر انتہائی منفی اور انمٹ نقوش چھوڑ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب سمیت دنیا کے بیش تر ممالک میں قربانی کے جانوروں کو شہری آبادی سے دور رکھا جاتا ہے اور ان کے ذبیحہ کو عوامی تفریح کا ذریعہ نہیں بنایا جاتا۔ جیتے جاگتے جانوروں کو اذیت میں اور جان کنی کے عالم میں دیکھ کر بچے تو بچے بڑے بھی دماغی صدمے یعنی پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ نفسیاتی کیفیت عموماً محاذِ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں کی ہو جاتی ہے۔ علامات میں بے خوابی، ڈراؤنے خواب، ایک ہی خوفناک منظر بار بار ذہن میں آنا، ڈپریشن، اضطراب، موڈ بدلتے رہنا، خود کشی کی خواہش، کبھی بے حسی اور کبھی پر تشدد جنون کے دورے پڑنا شامل ہیں۔

ان مریضوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ وہ نارمل گھریلو زندگی گزارنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اپنے پارٹنر کو ایذا دے کر جنسی لطف حاصل کرتے ہیں۔ اکثر طلاق یا علیحدگی سے گزرتے ہیں۔ معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ امریکہ میں تو کئی سانحات میں ایسے افراد ملوث رہے ہیں۔ سلاٹر ہاؤسز جہاں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں، میں کام کرنے والے کارکنان بھی اس مرض کا شکار پائے گئے ہیں۔ اسی لئے برطانیہ سمیت بہت سے مغربی ممالک میں جانوروں کو ذبح کرنے سے پہلے کرنٹ سے بے سُدھ کرنا لازمی ہے۔

ہمارے وطن کے صاحبِ حیثیت افراد کو اپنی ننھی منی خوشیاں منانے کا کوئی موقع ہرگز ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے لیکن مردانگی کے جھوٹے مظاہروں میں بسا اوقات چھری انہیں بھی تھما دی جاتی ہے جو نا چاہتے ہیں اور نا ہی اس کے اہل ہوتے ہیں، بس خود پر بزدل کا لیبل نہیں لگوانا چاہتے۔ ویسے بزدل کے لفظی معنی بھی بھیڑ بکری جیسا دل ہی ہوتے ہیں۔ پاکستان سے عیدِ قربان پر آنے والی اکثر وڈیوز اور تصویریں اتنی حقیقی اور ایکسپلسٹ ہوتی ہیں کہ مغربی ممالک کے کسی سینسر بورڈ سے انہیں پاس نہیں کروایا جا سکتا۔ بچوں کے ہاتھ سے قربانی کرواتے والدین اگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوں تو نا صرف انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑے بلکہ وہ ساری عمر اپنی سگی اولاد کی ایک جھلک دیکھنے سے بھی محروم کر دیے جائیں۔