ایران کی نیت پر شک کرنے والے 'معاہدہ ابراہیمیؑ' پر کیوں خاموش تھے؟

جس طرح امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایرانی حملے کے وقت اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے، مسلمان ممالک بھی تمام گروہی اور فروعی مسائل بھلا کر ایران کے ساتھ آ کھڑے ہوتے مگر افسوس کہ ساتھ دینا تو درکنار، کچھ ملک اور گروہ الٹا ایران ہی کے خلاف کھڑے ہو گئے۔

ایران کی نیت پر شک کرنے والے 'معاہدہ ابراہیمیؑ' پر کیوں خاموش تھے؟

فلسطین اور اسرائیل کے مابین جاری تنازعہ نے اس وقت ایک نیا رخ اختیار کر لیا جب اسرائیل نے یکم اپریل کو شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کر کے سفارت خانے کے 8 اہلکار ہلاک کر دیے۔ ان میں القدس فورس کے 2 سینئر رہنما بھی شامل تھے۔ اس حملے کے بعد ایران پر اندرونی اور بیرونی لحاظ سے شدید دباؤ تھا کہ وہ اسرائیلی حملے کا منہ توڑ جواب دے۔ چنانچہ 13 اپریل کی رات کو ایران نے پہلی مرتبہ اپنی سرزمین سے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں کی مدد سے براہ راست حملہ کر دیا۔ اگرچہ اس حملے میں ہونے والے اسرائیلی نقصان کی کوئی مصدقہ خبر تو موصول نہیں ہو سکی، تاہم ایرانی حکام اسے اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

اس حملے سے ایران نے کئی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ ایک تو ایران کو سفارتی سطح پر خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دوسری طرف ایران نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری پر بھی واضح کر دیا ہے کہ فوجی اعتبار سے ایران اس حالت میں ہے کہ اپنی سرزمین سے دور بیٹھے دشمن کو بھی کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایران نے اس حملے سے اسرائیل پر اپنی تسدید کو بھی واضح کر دیا ہے کیونکہ اسرائیل غزہ میں ہونے والی جنگ کے آغاز سے ہی ایران پر براہ راست حملے کی دھمکیاں دیتا آ رہا تھا۔

ایران کے اس حملے پر دو قسم کے ردعمل آ رہے ہیں۔ ایک وہ ردعمل ہے جس میں ایران کے اس عمل کو مسلمانوں کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے اور ایران کی جرات اور اس کے حوصلے کی تعریف کی جا رہی ہے۔ اس طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران کے اس حملے کی وجہ سے فلسطین کے مسلمانوں کے جذبے میں ایک نئی امنگ ابھری ہے اور عالمی سطح پر ان کی حمایت میں اضافہ ہو گا۔ ایسا مؤقف رکھنے والے افراد جہاں ایران کی تعریف کر رہے ہیں وہیں دیگر مسلم خصوصاً عرب ممالک کی خاموشی کو اسرائیل دوستی اور بزدلی سے جوڑ رہے ہیں۔ اردن کی جانب سے اسرائیل کو ایران کے خلاف اپنی فضائی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینا اس کی ایک واضح مثال ہے۔

دوسری قسم کا ردعمل یہ ہے کہ ایران نے اسرائیل پر ایک علامتی حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پے اور نا ہی اس حملے سے فلسطینیوں کو اسرائیل مخالف جنگ میں کوئی خاطر خواہ فائدہ ملنے کی توقع ہے۔ یہ نقطہ نظر رکھنے والے افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کا یہ حملہ خالصتاً اسرائیل پر اپنی تسدید کی طاقت کو ثابت کرنے کے لیے تھا، نا کہ یہ حملہ غزہ کی جنگ میں فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کیا گیا ہے۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے سے لے کر ایران کے اسرائیل پر حملے تک ایک ٹریپ بھی ہو سکتا ہے تا کہ غزہ اور فلسطین کے تنازعہ سے توجہ ہٹائی جائے۔ اس کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہو گا اور مزید یہ کہ ایران کے اس حملے کے بعد اسرائیل اپنے مغربی حلیفوں کی مزید امداد اور ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایسی سوچ رکھنے والے زیادہ تر وہی افراد ہیں جو غزہ کی جنگ کے آغاز سے ہی ایران کے ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

فلسطین اور اسرائیل کے موجودہ تنازعے میں مسلمان ملکوں کے اندر دو طرح کے طبقات موجود ہیں۔ ایک وہ ہیں جو ہر لحاظ سے فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اس تنازعہ میں جو بھی فلسطین کی مدد کر رہا ہے وہ اس کو سراہ رہے ہیں، چاہے وہ شیعہ ایران ہو یا پھر سنی الجزائر اور یمن۔ اس تنازعہ میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ حماس کے موجودہ اقدامات میں اس کو ایران کی فوجی و سیاسی حمایت حاصل ہے۔ اس گروہ کا یہ بھی خیال ہے کہ ایران حماس کے ذریعے سے اسرائیل کے خلاف حملے کروا کر فلسطین کے مسئلے کو اسرائیل کے حق میں لے جانے کا موجب بن رہا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے پاس بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا مزید جواز پیدا ہو گیا ہے۔

اس سوچ کے حامل افراد زیادہ تر خلیجی رجحان رکھتے ہیں جو غزہ کے تنازعہ میں عرب ممالک کی خاموشی پر حیران ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جو ایران کی اسرائیل کے خلاف موجودہ کارروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

مسلمان ملکوں کا دوسری قسم کا طبقہ فلسطین کے مسلمانوں کی اسرائیل کے خلاف ہر طرح سے مدد کرنا اپنا اخلاقی اور دینی فرض سمجتھا ہے۔ یہ گروہ حماس کی اسرائیل کے خلاف موجودہ کارروائی کو جائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ مزاحمت کو ہی فلسطین کے مسئلے کا واحد حل سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ ایران کے اسرائیل پر موجودہ حملے کو سراہنے کے ساتھ ساتھ اسے مسلم امہ کی جرات کی علامت بھی گردانتا ہے۔ یہ طبقہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ایران کے علاوہ کسی ملک نے اسرائیل پر اس طرح سے بلاواسطہ حملہ کرنے کی جرات نہیں کی۔

دونوں طرف کے افراد کے پاس اپنے اپنے مؤقف کو سچ ثابت کرنے کے لیے دلائل موجود ہیں۔ سیاسی اور فوجی کارروائیوں میں ایسا ہونا فطری عمل ہے۔

اگر فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ ایران کی پچھلے ایک عشرے پر محیط کارروائیوں کی وجہ سے فلسطین کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا ہے یا نقصان؟ ایران نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کو اس قدر مضبوط بنا دیا ہے کہ اب وہ اسرائیل کے لیے ایک مسلسل خطرے کی علامت بن چکی ہے۔ دوسری طرف شام میں داعش کی شکست کے بعد اسرائیل کو شام سے حملوں کا مسلسل خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ شام کی موجودہ حکومت ایران کی اتحادی ہے۔ اس کا مطلب ہے ایران کی مدد سے اسرائیل دونوں اطراف سے گھر چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے عراق اور یمن میں بھی اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت کی بنیاد رکھ دی ہے۔

دوسری جانب تیل کی دولت سے مالا مال مسئلہ فلسطین کے علاقائی وارث ترکی کے ساتھ مل کر اسرائیل کے ساتھ ' معاہدہ ابراہیمیؑ' جیسے معاہدے کر رہے تھے۔ یہ ممالک علاقے میں اسرائیل کے ساتھ مل کر تجارت کو فروغ دینے کے منصوبے بنا رہے تھے اور پاکستان جیسے ملکوں کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مشورے دے رہے تھے۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایران کے اقدامات اور اس کی نیت پر شک کرنے والے افراد اس وقت کہاں تھے جب تمام نام نہاد مسلمان ممالک مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرنے میں مصروف تھے؟ کیا ان اقدامات اور 'تاریخی' معاہدوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دینے کی تیاریاں نہیں ہو رہی تھیں؟

تجزیہ بتاتا ہے کہ اگر حماس کو ایران کی حمایت حاصل تھی تو یہ حمایت فلسطین کاز کو تقویت دینے اور اس مسئلہ کو دفن کرنے سے بچانے کے لیے تھی کیونکہ انسانی تاریخ سکھاتی ہے کہ بڑے سے بڑے سیاسی اور جغرافیائی مسئلے مزاحمت ہی سے حل ہوئے ہیں۔ جب مزاحمت ختم ہو جاتی ہے تو مسئلوں کا وجود بھی ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ حماس کے حملے کی ٹائمنگ نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ اگر اسرائیل کے عرب ممالک اور ترکی کے ساتھ معاہدے ہو جاتے تو بلاشبہ فلسطینیوں کی عشروں پر محیط قربانیوں اور مزاحمت پر کاری ضرب لگتی۔

تجزیہ یہ بھی بتاتا ہے کہ مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ ایک طرف جہاں فلسطین کے مسئلے کو عالمی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے، اسرائیل کے اردگرد مزاحمتی شکنجہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور اس کی عالمی تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بھی بدل رہا ہے۔ عراق، شام، یمن، لبنان اور اب حماس؛ طاقت کا یہ نیا توازن ایران کے حق میں جا رہا ہے جو عرب اور خلیجی ممالک کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گا۔ ہمارے مرحوم دوست راشد عارف کا ایک شعر اس حالت پر صادر آتا ہے:

نیا گھر بنانے کے لیے سوچنا پڑ جاتا ہے

اس میں تخریب کا پہلو بھی ہے تعمیر کے ساتھ 

طاقت کے اس نئے توازن سے خائف افراد، گروہ اور ممالک ایران دشمنی میں فلسطین کاز کے ساتھ بھی غداری کرنے سے نہیں چُوک رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح امریکہ، برطانیہ اور فرانس ایرانی حملے کے وقت اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے تھے، مسلمان ممالک بھی تمام گروہی اور فروعی مسائل بھلا کر ایران کے ساتھ آ کھڑے ہوتے مگر افسوس کہ ساتھ دینا تو درکنار، کچھ ملک اور گروہ الٹا ایران ہی کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ اردن کی مثال لے لیجیے۔ اردن وہی ملک ہے جس نے 1970 میں پاکستانی فوج کی مدد سے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔ یہ اردن کا وہی فرماں روا عبداللہ حسین ہے جس نے 2004 میں خلیجی ملکوں کے اجلاس میں خبردار کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ آہستہ آہستہ شیعہ کریسنٹ یعنی شیعہ ہلال کی زد میں آ رہا ہے۔

میری رائے میں مسئلہ فلسطین کسی ایک مذہب، فرقے یا علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاً انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ اس لیے فلسطینیوں کی حمایت ذاتی وابستگیوں اور مذہبی ترجیحات سے بالاتر ہو کر کی جانی چاہیے۔ فلسطین کاز کی حمایت کرنے والے ممالک اور افراد کو مذہبی، فرقہ جاتی اور علاقائی تنگ نظری اور کینے سے جوڑنے والے افراد اور گروہوں کے دل یقیناً کسی پوشیدہ مرض میں مبتلا ہیں۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔