Get Alerts

پاکستان مشرق وسطیٰ کو کھلی جنگ سے کیسے بچا سکتا ہے؟

مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی فارمولا کے سلسلے میں امریکہ، پاکستان، سعودی عرب اور کئی عرب ممالک کے درمیان جزوی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یقیناً پاکستان مشرق وسطیٰ اور خطے میں ممکنہ جنگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان مشرق وسطیٰ کو کھلی جنگ سے کیسے بچا سکتا ہے؟

وطن عزیز پاکستان کو اِن دنوں شدید اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی عدم اِستحکام اور پھر اندرونی خلفشار ملک کی سلامتی کے لیے شدید خطرات پیدا کر رہا ہے۔ دراصل سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہی معاشی عدم استحکام ہے۔ معاشی عدم استحکام اور خصوصاً توانائی بحران نے اندرون ملک صنعتوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ مہنگی بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی صنعت بھی اس سے شدید متاثر ہوئی ہے۔

دوسری جانب چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی قرضوں کی رول اوور کی درخواست تو قبول کر لی ہے لیکن اس سے بھی پاکستانی معیشت میں کوئی ممکنہ بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مہنگی بجلی اور ٹیکسوں کی بھرمار سے بیرونی سرمایہ کاری بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ محققین کے مطابق متعدد پاکستانی سرمایہ کاروں نے بھی اپنی سرمایہ کاری کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک یا پھر بنگلہ دیش یا تھائی لینڈ منتقل کر لیا ہے۔ ماہرین کے مطابق متعدد پاکستانی آئی پی پی ایز کے تانے بانے بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومتی ایوانوں سے جا ملتے ہیں جن سے عوام ریلیف کی توقع کر رہے ہیں۔ اب حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ وسیع تر قومی مفاد میں تمام سیاسی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں تا کہ سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے، پھر ہی معاشی ترقی کا سفر شروع کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے دیرینہ دوست ممالک بھی حکومت وقت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ فوری طور پر سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معیشت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر لایا جا سکے۔ دوسری جانب خارجہ محاذ پر بھی پاکستان کو انتہائی محتاط انداز فکر اختیار کرنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی میں بھی معیشت کو ہی اولین ترجیح دینا ہو گی اور صرف اور صرف قومی مفادات میں ہی تمام فیصلے حقیقت پسندانہ انداز میں کرنے ہوں گے۔ چونکہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مستقل دشمن لہٰذا ہمیں یقیناً پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یقیناً پڑوسی ممالک کی جانب سے پاکستانی حدود کے اندر کسی بھی قسم کی کارروائی ناقابل قبول اور قابل مذمت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چین اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات میں بھی توازن پیدا کرنا ہوگا۔ نیز ہمیں مشرق وسطیٰ کی بگڑی ہوئی صورت حال کے تناظر میں بھی محتاط انداز فکر اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا، خصوصاً امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہماری سب سے زیادہ برآمدات امریکہ کے ساتھ ہیں۔ یقیناً بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں امریکی اثر و نفوذ سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور مغرب اور امریکہ کے ساتھ اپنے تجارتی حجم کو ہر قیمت پر بڑھانا ہوگا۔ نیز امریکہ اور مغربی ممالک کے ذریعے عالمی مارکیٹ میں اپنی اشیا کی رسائی کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔

یقیناً اب ہمیں خطے میں ہونے والی متعدد تبدیلیوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا اور پھر ازسرنو اپنی خارجہ پالیسی کو مربوط انداز میں تشکیل دینا ہوگا۔ ہمیں جنوبی ایشیا میں بھی حالیہ تبدیلیوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا، خاص طور پر ہمیں بنگلہ دیش میں حالیہ انقلاب سے بھارت نواز حکومت کے خاتمے اور اس کے خطے میں ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔

خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ہمیں مشرق وسطیٰ میں حالیہ ہونے والے حالات و واقعات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایک دوست پڑوسی ملک کے دارالحکومت میں ایک اہم مہمان مزاحمتی لیڈر کی شہادت سے پیدا ہونے والے حالات و واقعات کا بھی بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نیز بھارت کے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا۔ دوسری جانب بہت سے عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے خطے میں رونما ہونے والے ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں نئے جدید امریکی بحری بیڑوں کی آمد سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال کا بھی بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ساتھ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کسی بھی صورت میں ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔

لہٰذا دنیا کے مختلف خطوں میں رونما ہونے والے متعدد واقعات کی روشنی میں ہمیں صرف اور صرف اپنے اقتصادی مفادات کے تحت ہی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینا ہو گا کیونکہ ملک کی اقتصادی ترقی ہی ہمارے دفاع اور معاشی استحکام کا باعث بنے گی۔ لہٰذا امریکہ اور مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کی مخاصمت کی پالیسی کسی بھی طرح ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں ناصرف اپنے پڑوسی ممالک بلکہ چین، امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ صرف 'دو طرفیت' کی بنیاد پر ہی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اب چین کے ساتھ کیے گئے توانائی معاہدوں کا بھی ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی قوم کی مہنگی بجلی سے بھی جان چھڑائی جا سکے۔

دوسری جانب ہمیں اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ عالمی قوتوں نے جنوبی ایشیا اور عالمی منظرنامے میں بھارت کو چین کے مقابلے میں اہم کردار سونپنے کا فیصلہ کر لیا ہے لہٰذا پاکستان کو بدلتے عالمی منظرنامے اور خطے کی بدلتی صورت حال کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یقیناً پاکستان عرب ممالک اور خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید چند خلیجی ریاستوں اور چند عرب ممالک کے درمیان دو ریاستی فارمولا پر ابھی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر ہی شاید مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کو ممکنہ جنگ کی ہولناکیوں سے بچایا جا سکتا ہے کیونکہ جنگ خطے میں کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔

مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی فارمولا کے سلسلے میں امریکہ، پاکستان، سعودی عرب اور کئی عرب ممالک کے درمیان جزوی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یقیناً پاکستان مشرق وسطیٰ اور خطے میں ممکنہ جنگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے چونکہ جنگ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ یہ جنگ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں مزید بد امنی اور معاشی اور سیاسی استحصال پیدا کرے گی۔ لہٰذا عالمی تنازعات کا حل صرف اور صرف پر امن ذرائع اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی نکالنا ہوگا۔ پاکستان کو فوری طور پر دوست ممالک کے ساتھ مل کر سفارتی محاذ پر اپنی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے اور دوست خلیجی اور عرب ممالک کے درمیان ' دو ریاستی حل' کے لیے عملی طور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہتے معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کو بھی فوری طور پر روکا جا سکے اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے بھی راہ ہموار ہو سکے۔

پاکستان یقیناً دوست ممالک کے ساتھ مل کر خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کو ایک بڑی جنگ سے بچا سکتا ہے۔ چونکہ عالمی تنازعات کے حل کے لیے فریقین کو طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر علاقاتی اور بین الاقوامی تنظیموں کو بھی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی فارمولہ پر عمل درآمد کے لیے وسیع تر اتقاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورت حال تیسری عالمی جنگ کا بھی سبب بن سکتی ہے۔ یقیناً عالمی تنازعات کے پر امن حل کے لیے اقوام متحدہ، علاقائی تنظیموں اور عالمی قوتوں کو مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انجمن اقوام کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا کہ آئندہ دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے اور اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔

پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔