مشرق وسطیٰ میں جنگ کی سلگتی آگ، اور ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک

مشرق وسطیٰ میں جنگ کی سلگتی آگ، اور ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک
ایران کے عسکری لیڈر اور اسکی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں امریکی حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ جنرل سلیمانی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر عراق کے دارالحکومت میں ٹارگٹ کیا گیا۔ جنرل قاسمی ایران کے رہبر امام خامینائی کے بعد ایرانی قیادت کے سب سے اہم رکن تھے اور انکی سب سے زیادہ حفاظت کی جاتی تھی اور انکی القدس فورس  صرف اور صرف آیت للّٰہ علی خامینائی کو جواب دہ تھی اور وہ براہ راست انہی سے احکامات لیا کرتے تھے۔

جنرل قاسمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں جنگی حکمت عملی کے عسکری ماہر تھے اور القدس فورس کی حکمت عملی کی وجہ سے عراق ایران جنگ میں ایران نے طویل عرصہ تک مزاحمت کی اور اور برتری حاصل کی۔ پھر  عراق میں شیعہ عسکری گروپس پر اثر و رسوخ ہو یا شام میں باغیوں کی سرکوبی، حزب اللہ کو ایران کی عسکری تربیت اور حمایت ہو یا یمن میں جنگ۔ جنرل سلیمانی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

جنرل سلیمانی نے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف کامیابیوں میں انکی قدس فورس نے اہم کردار ادا کیا۔ جنرل سلیمانی انیس سو اٹھانوے سے القدس فورس کے سربراہ تھے۔ یہ وہی قدس فورس ہے جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایران سے باہر کاروائیاں کرتی ہے اور ایران سے باہر عسکری قوتوں خاص کر مشرق وسطی میں اسکا عمل دخل خاصا ہے اور اثر رسوخ بھی بہت ہے۔

2001اور 2007 میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی کی تو ایران اور امریکہ کے درمیان تعاون موجود تھا۔ دو ہزار ایک میں تو ایران کی اینٹلیجنس رپورٹس پر امریکہ نے افغانستان میں کاروائیاں کیں۔

القاعدہ سے نمٹنا بھی جنرل سلیمانی کی ذمہ داریوں میں شامل تھا کیوں کہ دولت اسلامیہ سے عراق اور شام میں کامیاب حکمت عملی کے بعد انکی اس قسم کے عسکری گروپوں سے نمٹنے پر گرفت بہت مربوط تھی لیکن۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا امریکہ جنرل قاسمی کی القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے دہشت گردوں سے نمٹنے سے خائف ہے یا پھر عراق میں بڑھتی ہوئی فرقہ ورانہ تشدد کی کاروائیوں کا ذمہ دار ایران یا پھر جنرل قاسم سلیمانی کو سمجھتا ہے ؟ امریکی سفارتخانے پر ایران نواز گروپوں کے حملے نے امریکی حلقوں میں تشویش کی ایک لہر پھیلا دی تھی، کیوں کہ امریکہ پہلے ہی القدس فورس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور پھر ایران نواز گروپوں کے امریکی سفارت خانے پر حملے نے جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کا جواز پیدا کر دیا۔

ایران نے جنرل سلیمانی کے قتل پر بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ ایران یہ بدلہ کیسے لے گا؟ ایران اور ایرانی قیادت ماضی میں یہ کہتی رہی ہے کہ وہ اپنے بقاء کی جنگ ایران سے باہر رہ کر لڑے گی، جسکا ثبوت ایران ماضی میں دیتا رہا ہے اور اسکا اور قدس فورس کا اثر رسوخ شام، عراق، یمن اور افغانستان میں بہت زیادہ ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں جنگ یا خانہ جنگی کی سی صورتحال ہے۔ ان ممالک میں ایران پہلے ہی مضبوط فوجی رابطے رکھتا ہے، سوال ہے کہ کیا ایران اور القدس فورس کے نئے سربراہ وہاں امریکی مفادات اور ان ممالک میں تنصیبات کو نشانہ بنائے گا یا پھر مشرق وسطیٰ میں امریکی حلیفوں سعودی عرب اردن، مصر اور اسرائیل کے خلاف اپنی پراکسیز (Proxies) کو استعمال کرے گا یا پھر انکے پاس اسکے علاوہ بھی کوئی حکمت عملی موجود ہے؟ بہرحال ایران ایک کڑے امتحان میں ہے کہ وہ اپنی جنگ ایران سے باہر رہ کر کیسے لڑتا ہے۔

ٹرمپ نے ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد امریکی جھنڈا ٹویٹ کیا تو کیا اسکا مطلب یہ لیا جائے کہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطی میں حالات اور صورتحال پر امریکہ کی مکمل گرفت آ گئی ہے ؟ تو میرا خیال ہے کہ یہ سمجھنا امریکہ کی سب سے بڑی غلطی ہوُگی کیوں کہ اب خطے میں چین اور رُوس دو بڑی قوتیں اپنا اثر رسوخ پہلے ہی بڑھا چکی ہیں، خاص کر کہ چین اور ایران کے درمیان اقتصادی، عسکری اور سیاسی روابط بہت زیادہ گہرے ہو چکے ہیں اور چین وہ واحد ملک ہے جو ایرانی تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے، اسکے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان آئندہ پچیس برسوں تک چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا سمجھوتہ بھی طے پا چکا ہے جس میں سے آئندہ 280 ارب ڈالر پیٹرولیم سیکٹر اور ٹیکنالوجی کی ترقی جبکہ 120 ارب ٹرانسپورٹ اور سڑکوں، کمنیکیشن کے ڈھانچے کو ترقی دینے کے لئے فراہم کرے گا۔

اسکے علاوہ چین اپنے مفادات اور کمپنیوں کی سیکیورٹی کے لئے پہلی بار اپنے پانچ ہزار چینی فوجی تعینات کرے گا۔ روس کا شام میں کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور اسکی فوجیں پہلے ہی وہاں موجود ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے تعلقات عامہ کے پروفیسر اور ایران اور مڈل آیسٹ کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا ہے ایران اور امریکہ پہلی بار براہ راست ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں اور جنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے تاہم انکا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان کو ماضی کی طرح غیر جانبدار رہنا ہو گا ورنہ پاکستان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایران کی یہ واضع پالیسی ہے کہ وہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تحریکوں کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے جو کہ ایک منفرد پالیسی ہے۔ ادھر حزب اللہ نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکہ حملے میں ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے جو اسرائیل، سعودی عرب اور امریکا کے دوسرے حامیوں کے لئے پریشان کن ہوسکتا ہے۔

امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے ڈرون حملے میں جنرل قاسمی کی ہلاکت کے ساتھ ہی اپنے حلیفوں سے رابطے شروع کر دیے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سولین حکومت سے رابطوں کے بجائے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا اور ساتھ ہی پاکستان کو فوجی تربیت کا عمل بحال کر دیا۔ ایران اور خطے میں اس کے حمایتی عسکری گروپوں نے بھی جنرل قاسمی کے بدلے کا اعلان کیا ہے۔ بغداد کے گرین زون میں میزائل حملہ ہو چکا ہے جس میں عراقی فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ افریقی ممالک میں الشباب نامی عسکری گروپ کی کارروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس نے اتوار کی رات کینیا میں کارروائی کی اور مونڈابے کے قریب امریکی فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا تاہم امریکہ نے سرکاری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

ایرانی جنرل قاسمی کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں امن کو شدید خطرات ہیں کیونکہ امریکی صدر نے کسی بھی جوابی کارروائی کی صورت میں 52 ایرانی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ ایران 37 امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ جنرل اسمعیل قانی کو قدس فورس کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے جو جنرل قاسم سلیمانی کے بہت قریبی ساتھی اور گوریلا وارفیر کے ایسے ہی ماہر بتائے جاتے ہیں جیسے جنرل قاسم تھے۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ کو مواخذے کی تحریل کا بھی سامنا ہے جبکہ وہ دوسری مدت کے لئے انتخاب بھی لڑنے والے ہیں؛ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کی یہ کارروائی مواخذہ سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے یا پھر انتخابات میں کامیابی کے لئے کوئی حکمت عملی؟

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔