کیا عید نماز مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے؟: نبیﷺ کی ایک سنت پر عمل کرکے عید پر کرونا سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

کیا عید نماز مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے؟: نبیﷺ کی ایک سنت پر عمل کرکے عید پر کرونا سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
ملک میں عید الفطر منائی جا رہی ہے اور اس وقت ملک کرونا وائرس کی وبا کے شدید دور میں داخل ہو رہا ہے۔ ایسے میں طبی ماہرین چاہتے تھے کہ اس بار عید نمازیں گھروں میں یا کھلے میدانوان میں ایک سے دوسرے نمازی کے درمیان خاطر خواہ فاصلہ رکھ کر پڑھی جائیں تاہم علما بضد رہے کہ مساجد یا چار دیواری میں محدود عید گاہوں میں ہی یہ اجتماعات ہوں گے۔ اس حوالے سے اہم یہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر کی 80 فیصد عید گاہیں کچا فرش رکھتی ہیں جبکہ 30 فیصد سے زائد راہداری کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ جہاں پر روز کے گزر کے باعث دیگر فاضل مادے بھی پائے جاتے ہیں ان عید گاہوں میں عیدین اور نماز جنازہ ادا کی جاتیں ہیں اور اکثر بڑے اجتماعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ان غیر محفوظ عید گاہوں اور کھچا کھچ بھری مساجد میں کسی قسم کے ایس و پی پر عمل نہیں ہوگا۔
لیکن اگر اسلامی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی عید نماز سے متعلق سنت کرونا وائرس کے دوران بہترین طور پر معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر عید نماز سے متعلق حضور اکرم ﷺ کا وطیرہ مطہرہ دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے کوئی بھی عید کی نماز بغیر کسی عذر کے مسجد میں نہیں پڑھی۔ پیغمبر اسلامﷺ عید نماز کے لئے ہمیشہ ایک بڑا میدان منتخب فرماتے اور وہیں نماز ادا کرتے۔

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ "رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ سے باہرنکل کر کھلی جگہ میں عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرتے تھے۔" پھر خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی میدان میں عید کی نماز کی امامت کرواتے اور اس حوالے سے انکا ارشاد مبارک امام مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اگر میدان کی طرف نکلنا مسنون نہ ہوتا تو میں نماز مسجد میں پڑھتا۔ امام مالک ہی کے نزدیک عید نماز فراخ میدان میں ہی ادا کی جانی چاہئے کہ رسول اللہﷺ نے ہمیشہ عید کی نماز میدان میں پڑھی ہے۔ اور جس کام پر رسول اللہﷺ ہمیشگی کریں۔ وہ مقام افضیلت سے نہیں اتر سکتا۔

یہاں یہ بات ریکارڈ کے لئے پیش کی جانی ضروری ہے کہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اس معاملے پر اختللافی نکتہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مسجد فراخ ہو تو پھر مسجد میں ہی عید نماز ادا کی جانی چاہئے۔ لیکن وہ اس حوالے سے اہل مکہ کی مثال دیتے ہیں نہ کہ حضور ﷺ کی سنت مبارکہ سے ۔ چنانچہ کسی روایت میں نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے عذر کے بغیر مسجد میں نماز عید ادا کی ہو۔
بلکہ بعض علامہ کے نزدیک تو سنت میں نماز عید کی میدانوں میں ادائیگی کے حوالے سے اس قدر پابندی کے بعد مساجد میں عید نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔

تاہم مذہبی مسائل پر بحث علما کا کام ہے لیکن موجودہ وبا کی صورت میں عید نمازوں سے متعلق سنت نبوی ﷺ کا یہ پہلو اجاگر کرنا اور اسکی روشنی میں ایسے فیصلے لینا بہت ضروری ہے جس کا نتیجہ عوام الناس کی زندگیوں کے تحفظ کی صورت میں آئے گا۔ گو کہ عید نمازیں فرض نمازیں نہیں ہیں لیکن پھر بھی مسلمان بڑی تعداد میں ان میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے اختتام پر بغل گیر ہو کر مبارکباد دینا روایت سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں کوئی مسجد ایسی نہیں جہاں پر رش نہ ہوا ہو اور اس ہجوم میں کرونا کے ایس او پیز کو کون یاد رکھتا ہے۔ اس لئے اہم یہ ہے کہ عید نماز کی کھلے میدانوں میں ادائیگی کی سنت کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے اس وبا کے دوران پر ہجوم مساجد میں نمازوں کا انعقاد روک کر ہزاروں لوگوں کی صحت اور جان بچا لی جاتی۔