’’ہم خوشیاں نہیں مناتے، ہم سوگ کرتے ہیں‘‘؛ بلوچستان میں ہونے والے ظلم کے سہولت کار کون ہیں؟

’’ہم خوشیاں نہیں مناتے، ہم سوگ کرتے ہیں‘‘؛ بلوچستان میں ہونے والے ظلم کے سہولت کار کون ہیں؟
دو دن سے بلوچستان کی بہن حسیبہ قمبرانی کے غم کا نوحہ لکھنے کا سوچ رہا تھا، لیکن ہمت نہیں ہوئی۔ سچ پوچھیں تو میرے پاس الفاظ کا جو ذخیرہ ہے اس میں ایسا کوئی بھی لفظ نہیں جو بلوچستان کی بیٹی حسیبہ قمبرانی اور اُس جیسی بہت سی اور بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کے غم کا مداوا کر سکے۔ وہ لفظ جس سے بلوچستان کا نوحہ لکھا جا سکے۔

سوشل میڈیا پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتی حسیبہ قمبرانی کی ویڈیو نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپنے دو گمشدہ بھائیوں کی تصاویر اٹھائے بلوچستان کی بیٹی ریاست سے التجا کر رہی تھی کہ میرے بھائی لوٹا دو۔

حسیبہ قمبرانی نے ریاست سے چیخ چیخ کر، رو رو کر، دہائیاں دیتے ہوئے التجا کی کہ جب میں بھائیوں کی تلاش میں گھر سے نکلتی ہوں تو ہمیں لوگوں کی نظریں کھاتی ہیں، بلوچستان کا ہر دوسرا گھر اسی صدمے میں مبتلا ہے، ہماری خوشیاں ملیا میٹ ہو چکی ہیں، ہم خوشیاں نہیں مناتے، ہم سوگ کرتے ہیں، اپنے بھائیوں کا۔ ہم اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر بھائیوں کو پڑھاتے ہیں تاکہ ملک و قوم کا نام روشن کریں لیکن ریاست انہیں چن چن کر اٹھاتی ہے۔

بلوچستان کی بیٹی حسیبہ کے ان الفاظ نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ ریاست اتنی بہری کیوں ہو چکی ہیں کہ اسے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی دہائیاں بھی سنائی نہیں دے رہیں۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ حسیبہ قمبرانی کے بھائی محمد حسان قمبرانی اور چچازاد بھائی حزب اللہ قمبرانی لاپتہ ہیں، اور ایک بھائی کی مسخ شدہ لاش ان کا خاندان پہلے بھی دفنا چکا ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جسے حسیبہ قمبرانی کی دہائیوں نے زندگی بخش دی۔ ایسی بہت سی اور کہانیاں بلوچستان کے سینے میں دفن ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ حساس مسئلہ کہلاتا ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جس پر بات کرتے یا لکھتے ہوئے ملک کے نامی گرامی بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر میڈیا آپ کو سیاستدانوں کے بیڈروم تک کی خبریں بھی دیتا ہے، لیکن بلوچستان کے لوگوں کے آئینی و قانونی حقوق کی پائمالی ان کو دکھائی نہیں دیتی۔

ہم بطور قوم منافقت کے اعلیٰ ترین درجے پر ہیں۔ ہمیں کشمیر، فلسطین اور امریکہ میں سیاہ فام باشندوں پر ہونے والا ظلم تو صاف نظر آتا ہے، ہم اس پر احتجاجی مؤقف بھی اپناتے ہیں لیکن جب بلوچستان سے ہائے ظلم۔۔! ہائے ظلم۔۔! کی آوازیں آتی ہیں تو ہم بہرے بن جاتے ہیں۔ بلوچستان کا نوحہ لکھنے والوں پر غداری کا لیبل لگاتے ہیں اور ریاست اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو محب الوطنی کے نعرے سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

ریاست کے پاس آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے آئینی ادارے اور طریقہ کار موجود ہے۔ یہاں تک کہ ایسے قوانین بھی موجود ہیں جو آئین کے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں، لیکن اس کے باوجود بلوچستان والوں کا مقدر مسخ شدہ لاشیں اور گمشدہ بھائی اور بیٹے کیوں؟ ہم کشمیر، فلسطین اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے والے مظالم پر رنجیدہ ہونے والے ریاست سے یہ سوال اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہم منافق ہیں۔

حسیبہ قمبرانی کہتی ہیں کہ پاکستان کے قوانین موجود ہیں۔ اگر میرے بھائیوں نے کچھ کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کر کے سزا دی جائے، اس طرح لاپتہ کرنا سراسر ظلم ہے۔ بلوچستان کی بیٹی کا یہ مطالبہ ریاست کے آئین اور قوانین کے عین مطابق ہے، لیکن ریاست یہ آئینی اور قانونی حق دینے سے کترا رہی ہے۔

حسیبہ قمبرانی اور بلوچستان کی اس جیسی بہت سی اور بہنوں کی دہائیاں اگر ریاست نظر انداز کر رہی ہے تو اس کی وجہ ہماری منافقت ہے جو ہمیں اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے روکتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم بلوچستان میں ہونے والے اس ظلم کے سہولت کار ہیں۔

آخر میں یہی کہوں گا کہ اللہ بھلا کرے ہمارے کنٹینر والے عمران خان کا حضرت علیؓ کا ایک قول اکثر اپنی گفتگو کا حصہ بناتے تھے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔

لکھاری نے جامعہ گجرات سے میڈیا سٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔