فیس بک کے رشتے اور ٹھرک کا کلچر

فیس بک کے رشتے اور ٹھرک کا کلچر
تحریر: (ارشد سلہری) پاکستان کے سماج میں تعلیم ،صحت ،سماجی ،سیاسی اور معاشی سمیت زندگی کے تمام معاملات پختگی اور درستگی سے محروم ہے۔ درست خیالی کا تصور ہی محال ہے۔ بالغ نظری چھوکر نہیں گزری ہے۔

ہر شعبہ زندگی میں ناپختگی، ناسمجھی اور جھوٹ وفریب عقیدے کی صورت موجود ہے۔ سوشل میڈیا اک انقلاب آفریں ایجاد ہے مگر وطن عزیز میں سوشل میڈیا کا استعمال بھی اپنے ڈھنگ سے ہو رہا ہے۔ اگر ہم صرف آن لائن شادیوں کے حوالے سے بات کریں تو سوشل میڈیا کی ہر سائٹ پر آن لائن شادی کرانے کے لئے اکاونٹس کی بھر مار ہے۔

 آن لائن رشتہ اور شادی کے زیادہ اکاونٹس فیس بک پر ہیں جو زیادہ تر جعلی ہیں البتہ جو لوگ ویب سائٹس کے ذریعے کام کر رہے ہیں اور ان کے سوشل میڈیا پر بھی اکاونٹس موجود ہیں۔

ان کا کام بھی درست ہے اور طریقہ کار بھی مناسب ہے۔ آن لائن شادی کے لئے فیس بک پر بنائے گئے عمومی اکاونٹس کی آئی ڈیز میل حضرات نے عورتوں کے نام پر فیک بنا رکھی ہیں۔ اسی طرح عورتوں نے اپنے اصل نام کی بجائے فرضی نام سے آئی ڈیز بنا رکھی ہیں۔

عورت ہے یا مرد پروفائل اور تصویروں کا تبادلہ کرتے ہیں جب بات چیت ہوتی ہے تو تلخی پر ختم ہوتی ہے کیوں کہ دونوں کی خواہشات و مطالبات اوقات سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ عجیب قسم کے ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں۔ جان پہچان کے مرحلے پر دونوں جانب سے جھوٹ، فریب اور منافقت سے بھرپور طریقے سے کام لیا جاتا ہے۔ آن لائن شادی کے گروپس اور اکاونٹس سے رجوع کرنے والے میل اور فی میل میں کئی اقسام کے لوگ ہیں۔ پہلے عورتوں کی بات کر لیتے ہیں۔ ایک وہ عورتیں ہیں جو طلاق یافتہ ، خلع یافتہ ہیں اور ڈھلتی عمر کی ہیں جنہیں اپنی شکل ،عمر اور تعلیم سے قطع نظر ایسے بے وقوف مردوں کی تلاش ہے جو انہیں اچھی اور امیرانہ سہولتیں دیں اور ناز نخرے بھی اٹھائیں۔

خود انہیں صرف کسی طریقے سے سمارٹ موبائل دستیاب ہے جس پر وہ سارا سارا دن اور رات مصروف رہتی ہیں۔ اہم ترین بات اخلاق سے بالکل عاری ہیں۔ پرلے درجے کی بداخلاق اور بدتمیز ہوتی ہیں۔ بات کرنے کا بالکل ہی ڈھنگ نہیں ہے۔ فوری اپنی ڈیمانڈز بتانا شروع کر دیتی ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ صرف ان کی بات سنی جائے ۔ خود کو خاص قسم کی مخلوق سمجھتی ہیں۔ بعض جنسی فاقہ کشی کا شکار ہوتی ہے اور جنسی موضوعات پر بات کرنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ایک قسم نوجوان اور نوعمر لڑکیوں کی ہے جو امیر کبیر لوگوں کی تلاش میں ہوتی ہیں جو انہیں شہزادی بنا کر رکھیں اور بیرون ممالک لے جائیں۔ نوعمر لڑکیاں اپنے جنسی اعضا دیکھا کر موبائل کارڈز اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں ڈیمانڈ کرتی ہیں۔ اک قسم لیٹ میرج کی ہے جوبہت خطرناک سی ہیں۔ عجیب قسم کی مخلوق ہیں۔ مردوں کو ریجکٹ کر کے انہیں تسکین ملتی ہے۔

خود پسند اس قدر ہوتی ہیں کہ اپنے جسم کی نمائش پر اتر آتی ہیں کہ ہوں میں چالیس کی لیکن لگتی بیس بائیس سال کی ہوں۔ ایک، دو اور تین، چار بچوں والی بھی ہوتی ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو بچوں سمیت اپنایا جائے۔ عمر رسیدہ عورتیں بھی ہیں جن کے بچے بڑے ہیں مگر وہ تنہائی کا شکار ہیں ۔ وہ بھی کوئی اچھا آپشن تلاش کر رہی ہوتی ہیں ۔ بعض عورتیں اور لڑکیاں محض مردوں اور لڑکوں سے دوستی کے لئے فیس بک پر ایسے اکاونٹس سے رجوع کرتی ہیں ان میں زیادہ تر جنسی فاقہ کشی کا شکار ہوتی ہیں۔

دوسری طرف آتے ہیں۔ زیادہ تر مرد حضرات اور لڑکے آن لائن شادی والے اکاونٹس میں عورتوں کے نام کی آئی ڈیز بنا کر رجوع کرتے ہیں۔ ان کی بھی کئی اقسام ہیں۔ زیادہ تر دوسری شادی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ایسی عورت چاہتے ہیں جو انہیں امیر بنا دے جس کے پاس مال و دولت ہو۔

عمومی طور پرٹھرکی بھی ہوتے ہیں۔ بوڑھے بھی اس کار خیر میں اول ہوتے ہیں۔ بے روزگار اور آوارہ منش لڑکے زیادہ تر فراڈ کے چکر میں ہوتے ہیں ۔ امیر لڑکی، بیوہ ،جنسی فاقہ کشی کا شکار عورت کو شکار کرنے میں لگے رہتے ہیں تاہم فیس بک کے ایسے صارفین اکثر بے مراد رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ ایسی روش اختیار کرنا لاحاصل کی تمنا کے سوا کچھ نہیں۔

 

 

 

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔