پلان انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بچیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایشیائی ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان سب سے پیچھے ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کو لڑکیوں کے لیے بدترین ممالک قرار دیا گیا ہے۔
بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی تنظیم پلان انٹرنیشنل نے 'گرلز ان ایشیا 2020‘ کے عنوان سے ایک ریسرچ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچیوں کے تحفظ کی درجہ بندی میں پاکستان ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔
رپورٹ میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کو لڑکیوں کے لیے بدترین ممالک قرار دیا گیا ہے۔
پلان انٹرنیشنل کی اس رپورٹ کی تیاری میں لڑکیوں کے انٹرویوز، آن لائن سروے، پارٹنر ورکنگ گروپس اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت دیگر عالمی تنظیموں کی رپورٹس کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں لڑکیوں کی 1.1 بلین کی آبادی میں سے نصف ایشیا میں رہتی ہیں۔ جنوبی اور مشرقی ایشیا میں ہر سال لگ بھگ چھ ملین لڑکیاں 15 سے 19 سال کی عمر کی بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ ان بچیوں کو کم عمری میں شادی اور حمل کے نتائج کے ساتھ غربت میں رہ کر تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں جنوب اور مشرقی ایشیا کے 19 ممالک میں 10 سے 19 سال تک کی لڑکیوں کا چھ اشاریوں کے حوالے سے سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے، جن میں بچیوں کی تعلیم، صحت، جسمانی تحفظ، ان کے حقوق کے لیے ملکی قوانین، روزگار کے مواقع اور سیاسی فیصلہ سازی میں شمولیت شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان 19 ایشیائی ممالک میں مجموعی طور پر بچیوں کے حقوق کی درجہ بندی میں سب سے پیچھے یعنی انیسویں نمبر پر ہے جبکہ سنگاپور، فلپائن اور ویت نام اس رینکنگ میں سب سے اوپر ہیں۔
بھارت اس درجہ بندی میں چودہویں جبکہ افغانستان اور بنگلہ دیش بالترتیب سترہویں اور اٹھارہویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر اور بچیوں کی نوعمری میں شادی کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی صورتحال پاکستان سے بہتر ہے۔ افغانستان میں صرف 40 فیصد سے کم لڑکیاں اور پاکستان میں لڑکیوں کی نصف تعداد ہی پرائمری تعلیم مکمل کر پاتی ہے۔ پاکستان لڑکیوں کی صحت کے حوالے قدرے بہتر پوزیشن کا حامل ہے جبکہ بھارت صحت کی سہولیات کی فراہمی میں سب سے نچلی پوزیشن پر ہے۔
رپورٹ میں ایشیا میں لڑکیوں کے لیے کم عمری کی شادی اور مرضی کے خلاف بچوں کی پیدائش کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیا ہے جبکہ کم عمری کی شادیوں کو لڑکیوں کی نشوونما میں ایک اہم رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔