پلان اے کیا تھا؟ اور پلان بی کیا ہوگا؟

پلان اے کیا تھا؟ اور پلان بی کیا ہوگا؟
سیدھی سادی بات ہے کہ مولانا ایک مدبر سیاست کر رہے ہیں۔ ان پر کبھی سول سپرمیسی کا خبط سوار رہا اور نہ ہی آمریت کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بنے۔ اگر آپ اسے جاوید ہاشمی، فرحت اللہ بابر یا پھر رضا ربانی کی صف میں کھڑا کر رہے ہیں تو پھر آپ ان کی سیاسی دانش و بینش پر سوال کھڑا کر رہے ہیں۔

مولانا ایک پریگمیٹک سیاستدان ہیں جو ہر اس صف میں کھڑا ہونا جانتے ہیں جہاں اس کا قد کاٹ سما سکے اور اسے بھرپور جگہ مل سکے۔ مولانا ایسی صف میں بلا وضو و بلا ناغہ کھڑے ہونے میں ایک لمحے کا تامل بھی گوار نہیں کریں گے۔ چاہے آپ امام کسی پردہ نشیں کو بنا دیں کوئی روشن خیال آمر لے آئیں یا پھر کوئی کرپٹ و نااہل سول حکمران، مولانا اپنی بھرپور جسامت کے ساتھ آپ کو پہلی صف میں ملیں گے۔ اب کی بار یہ ہوا کہ خانہ خدا کا دروازہ ان پر بند کر دیا گیا۔

ان کا خیال تھا کہ وہ کئی اور نمازیوں کے ساتھ جائیں گے مگر ہوا یہ کہ شومئ قسمت سے وہ خود بھی ایوان کی ان راہداریوں کو نہ چھو سکا جو مولانا کے قدموں کے چاپ کے لیے گوش بر آواز تھیں۔ اسے اس تباہی کا گلہ کچھ فلکِ ناانصاف سے تو تھا ہی مگر کچھ باغباں بھی برق و شرر سے ملے ہوئے تھے۔ مولانا کا پیرِفلک پر تو بس نہ چلا مگر ان باغبانوں کو کبھی معاف کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔

نیز اسے یہ بھی اندیشہ لاحق رہا کہ اگر باغباں کی یہی جفا کاریاں رہیں تو پھر ہر شاخ پہ الو ہوگا، آپ کو مولانا نظر نہیں آئے گا۔ سو وہ پہلے دن سے اپنی بقا کی جنگ لڑنے نکلا ہے "لانگ مارچ سے لاک ڈاؤن تک" جس کی ایک کڑی ہے۔ اسے اپنے ماضی کا دکھ ضرور ہے مگر مستقبل کا اندیشہ بھی ہے۔ اس ملین مارچ، لانگ مارچ، دھرنے اور لاک ڈاؤن کی کامیابی سے انہیں بڑی امیدیں وابستہ ہیں مگر خدانخواستہ یہ سب منصوبے اور تحریکیں ناکامی کے گرداب میں پھنس گئیں تو؟ یہ شاید آنے والے انتخاب کے لیے نیک شگون نہ ہو مگر اب تو آپ کو مولانا ہر شاخ پہ بیٹھا نظر آرہا ہے۔ ہے نا؟

سوشل میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا، مولانا کو آپ نظر انداز کرنے سے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولانا کو آپ نے مسجد سے نکال باہر کیا مگر برآمدے میں کھڑے ہو کر وہ خوش گلو جو تلاوت کر رہا ہے۔ مسجد کے اندر آپ کی نماز میں خلل اندازی پیدا کر رہا ہے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسے اندر کر دیا جائے یا پھر وعدہ فردا کا تمغہ تھما کر چلتا کر دیا جائے۔

پلان اے یہ تھا کہ عمران خان مستعفی ہوجائیں۔ مولانا کا خیال تھا کہ بھاری تعداد میں لوگ نکلیں گے اور ایک ملک گیر تحریک چلے گی۔ پہلے دن واقع کافی لوگ نظر آئے، رفتہ رفتہ اسلام کے نام لیوا ختم ہوتے گئے اور انصار الاسلام باقی رہ گئے۔ مولانا نے نوشتہ دیوار پڑھ کر دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مگر، یہ کہنے سے تو رہا کہ ہم دستار جھاڑ کر یوں ہی سکندر کی طرح خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خالی ہاتھ جا رہے ہیں۔ ان کو فیس سیونگ کے علاوہ یہ بھی اندازہ ہے کہ اگر یوں ہی بے سر و ساماں لوٹے تو آنے والے انتخابات میں پہلے سے بھی برا انجام ہوگا۔ سو پلان بی کا اعلان کر دیا۔

پلان یعنی توڑ پھوڑ، لاک ڈاؤن ایک دھرنا اور احتجاج ختم کرنے کا "کور" ہے۔ مگر بڑا بھیانک قسم کا۔ ایک تیر نیم کش کا مارا بپھرا شیر خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور زخم کی تاب نہ لا کر دم بھی توڑ سکتا ہے۔ دونوں صورتیں کسی طور کسی کے لیے بھی اچھی نہیں۔ درمیاں میں کوئی رستہ نکل آئے تو بہتر رہے گا۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا کا پلان اے یہ تھا کہ فوج کو بیک فوٹ پر دھکیل دیا جائے اور پلان بی یہ ہوگا کہ عمران خان کو ہٹا دیا جائے۔ نہ رہا ابا، نہ بجا نکا۔ ہائے! کوئی ظالم مولانا کو یہ تو بتا دے کہ ہم نے اپنے تخیل سے یہ دل پذیر منصوبہ بنا کر آپ کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ یقینا مولانا بڑے شگفتہ مزاج اور ادب کے دلدادہ ہیں، وہ آپ کی حوصلہ افزائی ضرور فرمائیں گے۔

یوں لگتا ہے کہ مولانا کوئی غیرت مند خاوند ہیں۔ جو گناہ گار بیوی کو مار پیٹ کر گھر بھیجنا چاہتے ہیں مگر کچھ نادان بچے ہیں جو یہ سب کرنے نہیں دیتے۔ وہ پہلے بچوں کو ایک کمرے میں بند کرتا ہے اور سختی سے ہدایات جاری کرتا ہے کہ اگر کسی نے آواز نکالی یا شور شرابہ کیا تو جان سے مار دوں گا۔ پھر بیوی کے ہاتھ میں تین پتر تھما کر چلتا کر دیتا ہے، بعد میں بچوں کو منا لے گا۔ آخر اپنے بچے ہی تو ہیں۔

صاحبو! مولانا ایک زیرک سیاست دان ہیں۔ غیرت مند شوہر نہیں۔ فوج ایک طاقتور اور خودسر محکمہ ہے، لاچار و کمزور بچہ نہیں۔ عمران خان ایک ایسا کپتان ہے جو کشتی کو اپنے قبضے میں لے کر بیٹھا ہے۔ اگر چاہے تو مولانا کو کشتی سے اتار سکتا ہے مگر مولانا ایسی آسانی سے اسے چلتا نہیں کرسکتا۔

فی الحال بچے، رشتے دار اور پڑوسی خاتونِ خانہ کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسی آسانی سے تین پتر لے کر نہیں جائے گی، لکھ رکھو۔