سیالکوٹ سانحے نے ناصرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں ایک بار پھر سے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ متشدد گروہ جو اسلام کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں، ان سے کس طرح ڈیل کیا جائے؟
تحریکِ لبیک پاکستان نے اس واقعے سے خود کو علیحدہ کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کرکے اس کی تہہ تک پہنچا جائے۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جو نعرے اس موقع پر مشتعل ہجوم میں لگے، جو الفاظ دہرائے گئے، وہ تحریکِ لبیک پاکستان ہی کے رہنماؤں کی جانب سے ان کے جلسوں میں لگوائے جاتے رہے ہیں اور آج بھی لگائے جاتے ہیں۔
سٹیج سے نعرے کا پہلا حصہ بولا جاتا ہے اور سامعین اس کو مکمل کرتے ہیں۔ اس کے لئے متعدد ویڈیوز واٹس ایپ اور ٹک ٹاک پر گردش کرتی رہی ہیں اور یہ ویڈیوز بلاشبہ تشدد پر ابھارتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل و غارت کا سبق دیا گیا ہے۔
https://twitter.com/desmukh/status/1467088334090649603
لوگ جلسوں میں تلواریں لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سعد رضوی کو 'من سب نبیا فاقتلوہ' کا نعرہ لگانے کے لئے یہ تلوار تحفتاً دینا چاہتے ہیں۔
https://twitter.com/desmukh/status/1467088543512244224
ایک مولوی صاحب بچوں کو خادم رضوی کی یہ ویڈیوز دکھاتے ہیں اور ان سے بھی وہی نعرے لگواتے ہیں۔ بچے کہتے ہیں وہ نبیؐ کی شان کے لئے جان دے بھی سکتے ہیں، اور جان لے بھی سکتے ہیں۔
https://twitter.com/SAMRIReports/status/1467646311445012481
ایسے حالات میں یہ سمجھنا محال ہے کہ اس مشکل کا سدِباب کیسے کیا جائے کہ جب ملک بھر میں ایسے لاکھوں بچے پیدا کیے جا رہے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی بھلے چنگے انسان کی جان کے درپے ہو سکتے ہیں، بنا یہ سوال کیے کہ گستاخی کا الزام غلط بھی ہو سکتا ہے یا بغیر خود اپنے دل میں یہ خیال لائے کہ جس شخص پر الزام لگ رہا ہے وہ اگر غیر مسلم ہے اور اسلام کی ان مقدس ہستیوں کے ناموں سے اس کی واقفیت ہی نہیں، ان کی تقدیس اس پر واضح ہی نہیں تو کیا یہ بھی واجب القتل ہوگا؟ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے آنے والے ماہ و سال میں اس ملک کا بچہ بچہ نبرد آزما ہوگا۔
کسی کے جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں رہ جائے گی اور افسوسناک ترین پہلو یہ ہے کہ متاثرین کی جانب سے گستاخی کیے جانا ان کے ہولناک انجام کے لئے ضروری ہی نہیں۔ محض ایک جھوٹا الزام ہی کافی ہے۔
ایسے میں جہاں ایک طرف وزیر اعظم عمران خان اور حکومت کی جانب سے 'نہیں چھوڑیں گے' اور 'اجازت نہیں دیں گے' جیسے بیانات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، وہ لوگ جو واقعتاً اس صورتحال کی گھمبیرتا کو سمجھ رہے ہیں، وہ حل نہیں دے رہے تو خاموشی ضرور اختیار کر رہے ہیں۔
مثلاً ن لیگ کے خواجہ آصف اور اے آر وائے نیوز پر کاشف عباسی کے درمیان گذشتہ شب انٹرویو کے دوران اس بات پر اتفاق تھا کہ پچھلے 40 سال میں ہر مذہبی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ نے بنائی اور پھر کاشف عباسی کے الفاط میں ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں۔
بہت سے علما جن سے اس وقت میں رہنمائی کی امید تھی انہوں نے چپ سادھے رکھی یا تاویل کی، چونکہ اور چنانچہ میں پھنسے رہ گئے، دوٹوک الفاظ میں مذمت تک کرنے میں ناکام رہے۔ وزیر اعظم کے نمائندہ برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی بڑھ چڑھ کر آواز اٹھاتے رہے لیکن اس حقیقت سے صرفِ نظر ناممکن ہے کہ وہ حکومتی ترجمان ہیں اور گذشتہ چند برسوں میں جس طرح حکومت نے ریاستِ مدینہ کے نام اور مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کیا ہے، اس کے ترجمانوں کی باتوں پر اعتبار اب ملک میں ختم ہو گیا ہے۔ اور کون انکار کر سکتا ہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اور شہباز بھٹی کے قتل سے پہلے خود طاہر اشرفی صاحب انہیں دھمکیاں دیتے رہے تھے۔
https://twitter.com/desmukh/status/1468130463231483905
یہاں ضرورت ہے ایسے علما کے سامنے آنے کی جو سرکاری مراعات نہیں لے رہے، یا جن پر سرکار کے ترجمان ہونے کی مہر نہیں لگی ہوئی۔ یاد رکھیے کہ اہلسنت میں معروف ترین امام ابو حنیفہؒ ہیں جنہوں نے خلیفہ المنصور کی بار بار کی پیشکش کے بعد ان سے قاضی کا عہدہ لینے سے انکار کیا اور نجی طور پر اپنے مدرسے میں اپنے شاگردوں کے ساتھ مل کر فقہ حنفی ترتیب دیا۔ ان کے وضع کیے اصولوں کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کا حکمرانوں کے آگے کلمۂ حق کہنے پر اصرار ہے اور انہی حکمرانوں کے ہاتھوں وہ قید و بند کی حالت میں قتل بھی ہوئے۔
جاوید احمد غامدی آج کے پاکستان میں ایک ایسے عالمِ دین ہیں جو بے دھڑک ان مسائل پر بات کرتے ہیں اور انہوں نے کھل کر اس قتل کو قتلِ ناحق کہا ہے اور اس قتل کے پیچھے چھپے اصل کرداروں کی بھی نشاندہی کی ہے۔
انجینیئر محمد علی مرزا نے بھی کچھ اہم نکات اٹھائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
جاوید احمد غامدی ہی کے الفاظ میں علما کو مسلسل اس معاملے پر آواز اٹھانا ہوگی اور اس وقت تک یہ آواز اٹھاتے رہنا ہوگی جب تک کہ یہ رائے عوام الناس میں راسخ نہ ہو جائے کہ ایک انسان کا قتل، پوری انسانیت کا قتل ہے، خواہ کسی کے بھی نام پر کیا جائے۔