Get Alerts

درست سمت نہ ملی تو نوجوان ووٹر پاکستان پر انتشار مسلط کر سکتا ہے

درست سمت نہ ملی تو نوجوان ووٹر پاکستان پر انتشار مسلط کر سکتا ہے
پاکستان کے سیاسی نظام میں نوجوان نسل کی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بیش تر حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے جس میں سے زیادہ تر نوجوان اب ووٹ دینے کے اہل ہو چکے ہیں۔ الیکش کمیشن آف پاکستان کی انفارمیشن کے مطابق 2018 کے الیکشن میں نوجوان ووٹر کی شرح 43.82 فیصد تھی جبکہ 2023 کے الیکشن میں نوجوان ووٹر کی شرح بڑھ کر 45.84 فیصد ہو جائے گی۔ اس گروپ میں جو نوجوان آتے ہیں ان کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ اس 45.84 فیصد نوجوان ووٹر میں سے 26.38 فیصد وہ ووٹر ہوں گے جن کی عمر 26 سال سے 35 سال کے درمیان ہے جبکہ 19.46 فیصد ایسے نوجوان ووٹر ہیں جن کی عمر 18 سے 25 سال کے درمیان ہے۔

الیکشن کمشین کے اس ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے کل 121 ملین ووٹرز میں سے 55.57 ملین ووٹرز نوجوان ہوں گے جو 2023 میں ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ ان میں بہت سارے نوجوان ایسے ہوں گے جو 2023 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالیں گے۔ پاکستان میں نوجوان ووٹرز کی تعداد میں اضافہ پاکستان کے سیاسی نظام کے لیے ایک مثبت تبدیلی بھی ہو سکتی ہے مگر ان نئے ووٹرز کو درست طریقے سے سیاسی سمت پر نہ لایا گیا تو یہی نوجوان نسل پاکستان کے سیاسی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں موجودہ دور میں سیاست اور جمہوریت کے ساتھ جذبات اور جنون نے منسلک ہو کر جہاں نوجوان نسل کو سیاسی طور پر متحرک کر دیا ہے وہیں پر سٹیٹس کو والی سیاسی طاقتوں کے لیے مشکلات بھی کھڑی کر دی ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں سب سے زیادہ جوش و خروش سے ووٹ دینے والوں میں زیادہ تر تعداد نوجوان ووٹرز کی ہے۔ یہ بات ایک واضح حقیقت بن چکی ہے کہ کوئی بھی پارٹی اب اس نوجوان ووٹر کو نظرانداز کر کے الیکشن نہیں جیت سکتی۔ ان نوجوان ووٹرز کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد سوشل میڈیا سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا ایک ڈیجیٹل سیاسی اکھاڑے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اس کوشش میں ہے کہ سوشل میڈیا پر ان نوجوان ووٹرز کی حمایت حاصل کی جائے۔

نوجوان نسل بلاشبہ کسی بھی ریاست کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے ایک جانب تو یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے الیکشن میں اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کرے گی مگر دوسری جانب اس میں کچھ خطرات بھی پوشیدہ ہیں جو پاکستان میں سیاسی نظام کے لیے مشکلات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ نوجوان نسل کی نمایاں صفت جذبات ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ترجیح اور ہر فیصلہ جذبات سے وابستہ ہوتا ہے۔ مگر جب بات قومی فائدے اور نقصان کی ہو تو پھر جذبات کی بجائے دماغی استدلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ نوجوان نسل زیادہ تر حق اور استحقاق کی بات سننا اور ماننا پسند کرتی ہے جبکہ ریاست کے لیے حق سے زیادہ حقائق اور ذمہ داری کی اہمیت ہوتی ہے۔

سیاست اور جمہوریت میں میانہ روی اور درمیانے راستے کو منطقی مانا جاتا ہے مگر نوجوان نسل جارحانہ رویے کی حامل ہوتی ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل میں یہ رویہ زیادہ شدت سے پایا جاتا ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو نوجوان نسل میں جان کاری کی کثرت ہے۔ گلوبلائزیشن اور انٹرنیٹ کے انقلابات کی وجہ سے نوجوان اپنے حقوق کو اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتا ہے۔ دوسری وجہ پاکستان کا گلا سڑا اور فرسودہ سیاسی اور جمہوری نظام ہے جو 75 سال سے اپنی سمت کا ہی تعین نہیں کر سکا۔ جب نوجوان اپنی جان کاری اور گلوبل شناسائی کے تناظر میں پاکستان کے سیاسی مسائل کو دیکھتے ہیں تو وہ ردعمل کے طور پر شدت جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور انتقام لینے پر اتر آتے ہیں جہاں پر کوئی منطقی یا درمیانی راستہ نہیں بچتا۔

ان حالات میں نوجوان نسل روایتی سیاست اور پرانی طرز کی جمہوریت سے بددل ہو کر اپنے لیے نئے راستوں کا تعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں اکثر اوقات نوجوان نسل ان راستوں کا انتخاب کرتی ہے جو ریاست اور اس کے اداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ یا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کے متعین کردہ راستے ملکی سلامتی اور ترقی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ مگر جب کوئی قوم اور ریاست خود تبدیلی کی طرف مائل نہ ہو تو پھر نیچرل سلیکشن کی صورت میں اس کے اوپر نوجوان نسل کی یلغار مسلط کر دی جاتی ہے۔

چین اقتصادی طور پر بے پناہ ترقی کر کے ایک گلوبل پاور کے طور پر ابھر چکا ہے مگر چین کے نظام اور ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ان کی نوجوان نسل ہے جن کی بڑھتی ہوئی بے چینی چین کے موجودہ ہائبرڈ نظام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ چینی حکومت کے مطابق یہ نوجوان نسل 'مغرب زدہ' ہے جن کو مغربی افکار بغاوت پر اکسا رہے ہیں مگر اس میں مغربی افکار سے زیادہ عمل دخل جان کاری کو حاصل ہے جو نوجوان نسل کو ردعمل کے لیے بے چین اور مضطرب کر دیتی ہے۔

بالکل اسی طرح ہمسایہ اسلامی ملک ایران میں بھی حالیہ حکومت مخالف احتجاج نوجوان نسل ہی نے برپا کر رکھے ہیں۔ ایرانی حکومت بھی مغرب کو اس کا قصوروار ٹھہراتی ہے مگر یہاں بھی نوجوان نسل کی جان کاری کا عمل دخل ہے اور اس ایرانی حکومت کی اس جہالت کا کہ انہوں نے عرصہ دراز سے نوجوان نسل کی آواز کی طرف سے اپنے کان بند کر رکھے ہیں۔ اب یہی حالات پاکستان میں پیدا ہو چکے ہیں۔ مقتدر حلقوں نے جمود کے شکار اور گھٹن زدہ سیاسی نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی اور اب اس کے ردعمل میں ان کا سامنا بھی اس نوجوان نسل سے ہے جو کسی درمیانی راستے کی قائل نظر نہیں آتی۔

ریاست کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس قیمتی اثاثے کی حفاظت کرے۔ نوجوان کے اندر سب سے قیمتی چیز اس کے نظریات اور خیالات ہوتے ہیں۔ ان خیالات اور نظریات سے ہی ملکوں اور قوموں کی تعمیر اور ترقی بھی وابستہ ہوتی ہے اور معاشرے میں تنزلی اور شدت پسندی بھی انہی کی وجہ سے آتی ہے۔ اس لیے ریاست کے وجود کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کے رویوں کے بارے میں انتہائی محتاط رہے۔ زیادہ جان کاری اور معاشرے کی سماجی و اقتصادی ابتری نوجوان کو اکثر غلط ہاتھوں میں لے جاتی ہے جہاں پر ان کے جذبات، خیالات اور نظریات سے کھیل کر ہیرو ازم اور پاپولزم کی سیاست کی جاتی ہے۔

ابھی تک پاکستان کی ریاست، جمہوریت اور اس نظام کے اداروں کے پاس کوئی بھی مربوط لائحہ عمل نہیں ہے کہ وہ کس طرح اتنی بڑی نوجوان ووٹر کی اکثریت کے دماغوں کی آبیاری کریں گے کہ وہ اگلے الیکشن میں جذبات اور جنون کے بجائے عقلی اور منظقی بنیادوں پر فیصلہ کریں تا کہ ملک، قوم اور ریاست کا فائدہ ہو۔ اگر پاکستان کا سیاسی نظام ایسا کرنے میں ناکام رہا تو پھر ان نوجوان ووٹروں کے ذریعے سے جمہوریت نہیں بلکہ “Tyranny of the Majority” منتخب ہو کر آئے گی جس کے شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا-

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔