الیکشن کمیشن کی جانب سے میری درخواست مسترد کیے جانے کی خبر درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج الیکشن کمیشن نے 14 لوگوں کو شواہد فراہم کرنے کا موقع دیا ہے۔ یہ کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف کے ناراض بانی رکن اکبر ایس بابر کا۔
ڈان نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ آج الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران پتا نہیں کہاں سے یہ جھوٹی خبر چلی کہ میری درخواست مسترد ہو گئی ہے۔ پروفیشنلزم کا یہ تقاضا ہے کہ پہلے خبر کو چیک کر لیا جائے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ آج الیکشن کمیشن نے 14 لوگوں کو شواہد فراہم کرنے کا موقع دیا ہے کہ کیوں درخواست گزار یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات فراڈ پر مبنی تھے۔ اس پر میرے وکیل اور دیگر وکلا کے درمیان مفصل گفتگو ہوئی۔ کئی قانونی پہلو بھی سامنے آئے۔ سب نے گواہیاں دیں کہ ہمیں موقع نہیں دیا گیا۔ کوئی ووٹر لسٹ، کاغذات نامزدگی اور الیکشن کے قواعد وضوابط جیسی کوئی چیز ہی دستیاب نہیں تھی۔ ویڈیوز بھی چلیں، جو ہم نے فراہم کی تھیں۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ جو لوگ پارٹی کے سینٹرل سیکرٹریٹ میں ان تمام معاملات کو دیکھ رہے تھے اور عمران خان کے کافی قریبی تھے، ان سے ہم نے ووٹر لسٹ، کاغذات نامزدگی اور الیکشن کے قواعد وضوابط فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ ہم الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ یہ ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ اور ویڈیوز بھی چلائی گئیں جن میں 2 سے 3 درجن لوگ نعرے لگا رہے ہیں۔ اس پر بھی قانونی سوال و جواب ہوئے۔ ہم نے اپنی شکایت میں جو استدعا کی تھی وہ دو تین باتوں پر مبنی تھی۔ بنیادی بات یہ تھی کہ ان شواہد کی بنیاد پر یہ انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک فراڈ ہے۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ تحریک انصاف نے جو الیکشن کروائے ہیں، ان کا عمل 2 گھنٹے میں مکمل ہو گیا۔ 10 بجے کے قریب شروع ہوئے اور 12 بجے نتائج بھی آ گئے۔ گوہر خان بلامقابلہ چیئرمین پی ٹی آئی منتخب بھی ہو گئے۔ لیکن اس سے پہلے جو 2013 کا انٹراپارٹی الیکشن تھا اس کو کروانے میں تحریک انصاف کو ایک سال لگا تھا۔ اس پر بھی بہت سارے سوالات اٹھے تھے۔ جسٹس وجیہہ الدین کو ٹربیونل کا سربراہ بنایا گیا تھا جس میں ان تمام خامیوں کے بارے میں نشاندہی کی گئی تھی۔ اندازہ لگائیں کہ وہی جماعت ایک انٹرا پارٹی انتخابات کرواتی ہے ایک سال میں جو کچھ حد تک صحیح تھے کیونکہ اس میں کارکنان نے حصہ لیا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے اس الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ ہر پی ٹی آئی دفتر میں رونق تھی۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری استدعا یہ تھی کہ ہم نے آئین کا حوالہ دیا کہ آئین میں الیکشن کمیشن کے پاس بڑے وسیع اختیارات ہیں۔ آئین کے تحت ان اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو انتخابات کروانے کا ایک اور موقع دیا جائے، لیکن مانیٹرز آزاد لگائیں تاکہ شفاف انتخابات ہو سکیں اور تب تک پی ٹی آئی کو 'بلے' کا نشان نہ دیا جائے۔ اس طرح ایک لیوریج بھی بنتی ہے۔
تیسری استدعا یہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے قوانین الیکشن کمیشن تمام جماعتوں پر لاگو کرے کیونکہ یہی واحد طریقہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری ادارے بنیں اور حقیقی لیڈر دے سکیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہ انٹرا پارٹی الیکشن تو صرف 'ری-سائیکلنگ آف اولڈ لیڈرشپ' ہے۔ اسی پرانی قیادت کا انتخاب ہو گا جو بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ جو لوگ با صلاحیت ہیں، جو اچھے ہیں وہ لیڈرشپ میں کیوں نہیں آتے؟ اس کی وجہ یہی ہے۔
اکبر ایس بابر نے بتایا کہ فیک نیوز پر بحث کے دوران ایک رکن جو خیبر پختونخوا سے ہیں، انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ ہم نے ان کو جتنی رعایت دینی تھی دے دی ہے۔ اب ہم قانون نافذ کریں گے تو اندازہ لگائیں کہ باقی چار اراکین 12 سماعتوں کے بعد اگر اس روش پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ تحریک انصاف کے لیے کتنا خطرناک ہوگا کیونکہ نہ صرف 'بلا' جائے گا بلکہ جماعت ڈی لسٹ بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے قانون کا ریفرنس دیا۔ ہم تو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ شاید کسی طریقے سے الیکشن کمیشن خود یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر ایک اور موقع دے لیکن شفاف الیکشن ہوں۔ اب اس پر یہ بات کہی گئی کہ اکبر ایس بابر کی درخواست مسترد کر دی گئی۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ اگر ہماری استدعا مسترد ہوئی ہوتی تو پھر 12 تاریخ کا نوٹس کیوں دیا جاتا؟ اس دن باقاعدہ سماعت ہو گی۔ پی ٹی آئی کو ان کا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا، اس کے بعد فیصلہ آئے گا۔ کوئی ایک تحریر، کسی قسم کے آرڈر میں میری استدعا کے مسترد ہونے کی کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔ کوئی ایک رپورٹر بیٹھے ہوئے ہیں جو شاید ان کے سپورٹر ہوں گے انہوں نے ریمارکس کو فیصلہ سمجھ لیا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندر ایک بہت بڑی تعداد ہے جو میرے ساتھ ہے۔ ان میں پنجاب پی ٹی آئی کے بانی ممبر سعید اللہ خان نیازی ہیں جو کہ عمران خان کے فرسٹ کزن بھی ہیں۔ وہ مجھ سے میانوالی سے بار بار رابطے کر رہے تھے کہ میں اس الیکشن میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ کاغذات نامزدگی دے دیں۔ اب میں ان کو کیا کہوں کہ میں تو پارٹی دفتر بھی گیا ہوں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس کاغذات نامزدگی، ووٹرز لسٹ اور قواعد و ضوابط کی کاپی جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو ہم آپ کو کیسے دیں۔ ایسے بہت سارے اور لوگ بھی ہیں۔ آج پی ٹی آئی سے ایک خاتون جو کہ خواتین لیبر ونگ کی سابق نائب صدر تھیں، وہ بھی اپنی دستاویزات کے ساتھ آئیں۔ 2013 الیکشن میں ایک اور پی ٹی آئی کے ایم پی اے کے امیدوار، صوابی کے جنرل سیکرٹری تھے، وہ بھی آج سماعت میں موجود تھے۔ اسلام آباد سے ایک پرانے کارکن محمود خان بھی آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے لیے کیا کیا خدمات انجام دی ہیں۔
اس درخواست میں ہمارا یہ کہنا ہے کہ آپ اپنے کارکنان پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ ورکرز بس اس لیے ہیں کہ آپ کے اقتدار کے لیے سڑکوں پر نکلیں، جیل جائیں، ڈنڈے کھائیں اور اپنے خاندان برباد کریں؟ کیا ورکر کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں اپنی لیڈرشپ کا انتخاب کرے؟ کیا برطانیہ میں یہی نظام نہیں رائج؟ وہاں تو ایک بھارتی نژاد شخص اپنی پارٹی میں میرٹ پر اوپر آتا ہے اور وزیر اعظم بنتا ہے۔ ایک پاکستان نژاد شخص اپنی پارٹی سے جمہوری طریقے سے میرٹ پر اوپر آتا ہے اور لندن کا میئر بنتا ہے۔ آپ نے اپنی جماعت میں یہ راستے کیوں بند کر رکھے ہیں؟ وہ اس لیے کیونکہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اشخاص اور خاندانوں کے قبضے میں ہیں اور وہ اقتدار میں آنے کے لیے اس کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اسی لیے ہماری سیاست ناکام ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک میں جمہوریت صرف کاغذی جمہوریت ہے۔ وہ لوگوں کے مسائل اور حقوق کا تحفظ نہیں کرتی۔ یہ وہ بنیادی جنگ ہے جو ہم لڑ رہے ہیں۔