چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو اہم مقدمات کی سماعت کے لیے دو دلچسپ بنچز تشکیل دے دیے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان بنچز کی جانب سے اہم فیصلے متوقع ہیں۔ یہ کہنا ہے صحافی اسد علی طور کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد طور کا کہنا تھا کہ ان دلچسپ بنچز میں سے ایک بنچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی شوکار نوٹس کو چیلنج کرنے کی درخواست کی سماعت کے لیے بنایا گیا ہے جبکہ دوسرا بنچ ملٹری کورٹ میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے کیس کی سماعت کے لیے ہم خیال ججوں کا نہیں بلکہ آئین پسند ججوں پر مشتمل بنچ بنایا گیا ہے جبکہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس پر ایسا بنچ بنایا گیا ہے کہ جس کا فیصلہ ممکنہ طور پر فوج کے حق میں دیا جائے گا۔
اسد طور کے مطابق مذکورہ دونوں مقدموں کی سماعت کے لیے بنائے گئے بنچز خاصے دلچسپ ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے کیسز والے بنچ دلچسپ ہیں۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے کیس کی بروز جمعہ کو سماعت کے لیے 3 رکنی بنچ بنایا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہوں گی۔ بنیادی طور پر یہ آئین پسند ججوں کا بنچ ہے جو سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور ان کے دھڑے کے اعتاب کا شکار رہے ہیں جبکہ جسٹس مظاہر نقوی کا شمار بندیال پرست دھڑے میں ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی بہت خواہش تھی کہ یہ بنچ جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں بنتا لیکن انہیں یہ موقع نہیں ملا۔ اس بنچ کو 'سپیشل بنچ' کا نام دیا گیا ہے جو عدالت کی سپلیمنٹری کاز لسٹ میں آیا ہے۔ جو نارمل کاز لسٹ جاری ہوئی تھی اس میں یہ نام نہیں تھے۔
صحافی نے کہا کہ دوسرا ملٹری کورٹ والا معاملہ ہے۔ فوج نے 103 لوگوں کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے خلاف سول سوسائٹی نے توہین عدالت کی پٹیشن بھی فائل کر رکھی ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے اب 6 رکنی بنچ بنایا گیا ہے۔ یہ بنچ اس لیے دلچسپ ہے کہ اس بنچ کا فیصلہ 'ٹائی' ہو سکتا ہے۔ بنیادی طور پر ایسے بنچز میں ججز کی تعداد طاق عدد میں رکھی جاتی ہے تاکہ فیصلہ ٹائی نہ ہو سکے اور کسی ایک سائیڈ پر اکثریت ہو۔ اب اگر اس کیس کا فیصلہ 3-3 سے برابر ہو گیا تو پھر کیا کیا جائے گا؟ جسٹس سردار طارق کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر 13 دسمبر کو سماعت کرے گا۔ اس بنچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس سید حسن اظہر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔ ایسا بنچ جو فوج کے مفاد پر براہ راست اثرانداز ہو سکتا تھا اس بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود نہیں بیٹھے۔
صحافی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ماضی میں ملٹری کورٹس کے حوالے سے بڑا سخت اختلافی نوٹ لکھا تھا تو یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا خیال ہو کہ اس معاملے پر میری رائے پہلے سے ہی بہت واضح ہے۔ لیکن اس بنچ میں دو جج صاحبان کا نہ ہونا بہت اہم اور عجیب ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو اس بنچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ نیب اور فوج سول عدلیہ کے دائرہ کار میں کیوں نہیں آتے؟ تو عین ممکن ہے کہ یہ سوال پھر سے اٹھایا جاتا کہ فوج اپنے اہلکاروں کا سول ٹرائل نہیں ہونے دیتی تو سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالت میں کیوں ہو؟ اسی طرح شخصی آزادیوں پر جسٹس اطہر من اللہ کی رائے بہت واضح ہے۔
صحافی نے کہا کہ ان دو جج صاحبان کو نہ شامل کرتے ہوئے فوج کو بہت اچھا بنچ دیا گیا ہے اور اس میں ایک یا دو ججز کے علاوہ سب کی رائے فوج کے حق میں آنے کا امکان ہے۔ اب اگر فوجی عدالتوں کے معاملے پر ایک نقطے کا بھی ریلیف مل گیا تو اس کا مطلب واضح ہو جائے گا کہ کیوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو اس بنچ میں شامل نہیں کیا گیا۔