سب سے بڑے چینل والوں کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے ایک معروف و مرحوم ڈائجسٹ کے مقبول مدیر کو اردو املا کی درستگی (معاف کیجیے گا، درستی) کا کام سونپ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ بتایا، اگلوں نے کچھ سنا، ٹکر ٹائپ کروانے والوں نے کچھ سمجھا۔ دوسرے چینل والوں نے آدھی سنی/ آدھی دیکھی، باقی خود فرض کر لیا اور وہ اندھیر مچا کہ اب لفظ کو لفظ سجھائی نہیں دیتا۔
مذکورہ مقبول مدیر صاحب ایک ویڈیو میں شکوہ سنج ہیں کہ لوگ انڈا بھی ہ سے لکھتے ہیں حالانکہ 'انڈہ' (ہ پر زور دے کر) نہیں ہوتا، انڈا ہوتا ہے۔
ویسے یہ خیال ان مدیر کا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہے، لیکن عبدالستار صدیقی اور رشید حسن خاں کی رسائی الیکٹرانک میڈیا تک نہیں تھی اس لیے وہ اپنی جگہ پر رہے، یعنی موٹی موٹی کتابوں کے اندر بند۔ مگر میڈیائی اصلاح کاروں نے سستی رسائی کے استرے سے اردو املا کے بخیے ادھیڑ ڈالے ہیں۔
اس کے نتیجے میں جو حشر ہوا ہے وہ ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے۔ اس تحریر میں ہم صرف اس دھونس کا جائزہ لیں گے کہ مہینہ یا تھانہ جیسے الفاظ کے آخر میں ہ نہیں بلکہ الف آنا چاہئیے کیونکہ یہ ہندی میں الف سے لکھے جاتے ہیں۔
درست املا دوپٹا ہے یا دوپٹہ؟ پیسہ یا پیسا؟ تھانا یا تھانہ؟ مہینا یا مہینہ؟ اسی طرح چھاپا، دھماکہ، جھروکہ، تولیہ، ڈاکیہ، بھروسہ، امریکہ، پانسہ، ٹھیکہ الف سے لکھے جائیں یا ہ سے؟
اردو میں اس قبیل کے الفاظ صدیوں سے 'ہ' سے لکھے جاتے رہے ہیں (اس 'ہ' کا تکنیکی نام 'ہائے مختفی' ہے، اس کی تفصیل آگے آئے گی)، لیکن لسانی مجتہدین فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ چونکہ اصل میں یہ الفاظ ہندی کے ہیں، اور ہندی میں انہیں 'الف' سے لکھا جاتا ہے، اس لیے اردو میں بھی انہیں الف سے لکھا جائے۔
اس کی ایک دلچسپ مثال مولانا عرشی کے ہاں ملتی ہے جو غالب کے خطوظ مرتب کرتے وقت رونا روتے ہیں کہ جن لفظوں کے آخر میں الف آنا چاہئیے، غالب وہاں ہ لکھتے ہیں، اور پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ 'جن لفظوں کی اصل فارسی یا عربی نہیں ان میں مخفی ہ نہیں آ سکتی، الف ہونا چاہئیے'۔
یہ اعتراض نیا نہیں ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کے دور میں بھی لوگوں نے ایسی ہی شکایت کی تھی کہ لوگ بنگالہ جیسے الفاظ کو ہ سے لکھتے ہیں جو غلط ہے، اور جہانگیر نے اس بارے میں ایک فرمان بھی جاری کیا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر کسی نے کان نہیں دھرا اور وہ الفاظ صدی ہا صدی سے بدستور ہائے مختفی سے لکھے جاتے رہے۔
الف اور ہ کا اصول وضع کرنے والے ایک بنیادی اصول بھول گئے کہ دنیا کی ہر زندہ زبان روایت، چلن اور رواج پر چلا کرتی ہے، نہ کہ چند افراد کے ایک کمرے میں بیٹھ کر احکامات صادر کرنے سے۔
سوال یہ ہے کہ جو لفظ اردو میں صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آیا ہے، اسے ہم اب تک اچھوت اور غیر کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ لفظ اب اردو کا حصہ بن گیا ہے اس لیے ہم اسے ایسے ہی لکھیں اور بولیں گے جیسے ہمارے ہاں مستعمل ہے؟
دوسری زبانیں اس ضمن میں کیسے کام کرتی ہیں، اس کی ایک مثال دیکھیے۔ عربی کا لفظ ہے 'امیر البحر'۔ اسے انگریزوں نے اپنایا تو سہی، لیکن اپنے انداز میں، اور اسے ایڈمرل بولنے لگے۔ اب ہم کسی انگریز سے جا کر کہیں کہ 'بھائی صاحب، یہ لفظ اصل میں امیر البحر ہے اور آپ اسے غلط بول رہے ہیں'، تو وہ کیا کہے گا؟
یہی نا کہ 'بھئی بھلے یہ لفظ جہاں سے بھی آیا ہو، اب یہ ہماری زبان کا حصہ بن گیا ہے اور یہ فیصلہ صرف ہمی کریں گے کہ اسے کیسے بولا یا لکھا جائے، آپ کون ہوتے ہیں ہماری زبان میں ٹانگ اڑانے والے؟'
اسی طرح شیمپو/ چمپی (shampoo)، بینگلو/ بنگلہ (banglow)، ایواٹار/ اوتار (avatar)، کاکی/ خاکی (khaki) اور دوسرے کئی الفاظ کی مثال دی جا سکتی ہے جو اردو سے انگریزی میں گئے اور انگریزوں نے انہیں اپنے طریقے اور اپنی شرائط پر اپنا لیا۔
اب آ جاتے ہیں ہندی کی طرف۔ مضمون کی ابتدا میں گنوائے گئے الفاظ ہندی میں واقعی الف کے قائم مقام حرف سے لکھے جاتے ہیں، نہ کہ ہ کے قائم مقام حرف سے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہندی میں صرف ایک ہ ہے، جبکہ اردو میں دو مختلف قسموں کی ہ پائی جاتی ہیں۔
ہائے ملفوظی
وہ جو بولنے میں ہ کی آواز دیتی ہے، جیسے راہ، شبیہ، گواہ، پناہ، بادشاہ وغیرہ کے آخر میں۔ یہ لفظ کے شروع (ہزار، ہولناک) یا درمیان میں (الہام، کہانی) بھی آ سکتی ہے۔
ہائے مختفی
اس کے مقابلے پر ہائے مختفی مختلف چیز ہے جس میں ہ کی آواز نہیں بلکہ آدھے الف یا زبر کی آواز نکلتی ہے۔ یہ صرف لفظ کے آخر میں آ سکتی ہے۔ یہی ہ جامہ، فاختہ، آئینہ، پیمانہ جیسے فارسی الفاظ میں آتی ہے، اور یہی حرف پیسہ، تھانہ، مہینہ اور پتہ جیسے الفاظ کے آخر میں لکھا جاتا رہا ہے۔ اسے ہائے ملفوظی سے خلط ملط کرنا ناواقفی کی دلیل ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہمیں اردو لکھنے کے لیے اپنی روایت کو نظرانداز کر کے دوسری زبانوں کی لغات چھاننا پڑیں گی کہ انہیں وہاں کیسے لکھا جاتا ہے؟ اگر اسی اصول پر اصرار ہے تو پھر ہندی الفاظ پتی (بمعنی شوہر)، ستی، شکتی، مکتی، بھکتی، منتری وغیرہ کے بارے میں کیا ارشاد ہے کہ یہ الفاظ دیوناگری رسم الخط میں ی کے قائم مقام حرف پر نہیں بلکہ 'زیر' کی ماترا پر ختم ہوتے ہیں؟ ہندی کے اصولوں کی پیروی کرنے کے فارمولے پر عمل کر کے ہمیں ان الفاظ کو علی الترتیب ستِ، شکتِ، مکتِ، بھکتِ، منترِ لکھناپڑے گا۔
اردو میں سادھو، پربھو، مدھو (مدھوبالا) وغیرہ کیسے لکھے جائیں گے کیونکہ یہ دیوناگری میں و پر نہیں بلکہ پیش پر ختم ہوتے ہیں؟ تو کیا اسے سادھُ، پربھُ، مدھُ لکھا جائے؟
پاؤں، گاؤں، چھاؤں کے بارے میں کیا ارشاد ہے، ہندی والے تو انہیں علی الترتیب پانو، گانو، چھانو لکھتے ہیں؟ خود غالب نے پانو لکھا ہے اور یہ غزل ان کے دیوان میں واو کی پٹی میں موجود ہے۔
عربی میں مولیٰ، ہیولیٰ، مصفیٰ الف مقصورہ سے لکھے جاتے ہیں، لیکن اردو والوں نے اپنی آسانی کی خاطر انہیں مولا، ہیولا، مصفا کر دیا ہے۔ کیا یہ بھی غلط ہیں؟ پھر 'علیحدہ' کے بارے میں کیا ارشاد ہے کیونکہ عربی میں تو علیٰ حِ دہ ہے؟ اور پھر 'علیحدگی' کیسے درست ہو سکتا ہے، عربی میں تو گ ہے ہی نہیں؟
اصلاحِ املا کے داعی کہتے ہیں کہ جگہوں کے نام بدستور ہائے مختفی سے لکھے جاتے رہیں، مثلاً کلکتہ، آگرہ، کوئٹہ، پٹنہ، مانسہرہ، وغیرہ۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ الفاظ ویسے ہی رواج پا گئے ہیں۔ اگر یہی اصول ہے تو پھر پیسہ، روپیہ، پسینہ وغیرہ جیسے الفاظ بھی تو صدیوں سے ایسے ہی مروج ہیں، انہیں بدہئیت بنانے کی کی تُک بنتی ہے؟
پشتو زبان میں ہائے مختفی مستعمل ہے اور اسے راوڑہ، کوٹہ، خواگہ جیسے غیر فارسی/ عربی الفاظ لکھنے کے لیے صدیوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہاں کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ یہ غلط ہے۔
اگر اصل زبان کی پیروی کرنا ہی لازمی ٹھہرا تو پھر الفاظ کے معانی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ عربی میں تحمل کا مطلب بوجھ اٹھانا، غریب کا مطلب پردیسی، احتجاج کا مطلب دلیل پیش کرنا، سلوک کا مطلب راستے پر چلنا، رقعہ کا مطلب پیوند، باعث کا مطلب اٹھانے والا، حریف کا مطلب ہم پیشہ ہے۔ تو کیا اردو میں ان الفاظ کے معانی بھی بدل دیے جائیں؟
آپ نے دیکھا کہ اپنی زبان کے اصول وضع کرنے کے لیے دوسری زبانوں سے رجوع کیا تو بات بہت دور تک چلی جائے گی اور اس کا نتیجہ خود اپنی زبان کا حلیہ خراب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔
ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ پڑھتے وقت آنکھیں حروف کے ہجے نہیں کرتیں بلکہ پورا لفظ اکٹھا دیکھتی ہیں۔ اس لیے آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ لفظ 'غصّہ' پڑھتے وقت ذہن کے پردے پر غصے کی تصویر بن جاتی ہے۔ اسی طرح لذیذ، بھیانک، خطرناک، جیسے الفاظ پوری تصویر بناتے ہیں۔ یہی صورت دوسرے الفاظ کی ہے۔
ایسے میں اگر کوئی مہم جُو افریقا، ٹھیکا، یا تھانا لکھتا ہے تو عجیب سی جھنجھلاہٹ کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کھانا کھاتے وقت یکلخت دانتوں تلے کنکر آ جائے۔
ایک زمانے میں اردو ایک باوقار زبان تھی، اور اپنی شرائط پر دوسری زبانوں سے الفاظ قبول کرتی تھی۔ مثلاً انگریز لینٹرن لے کر آئے تو ہم نے اپنے صوتی تقاضوں کے مطابق اسے لالٹین کر لیا۔ سینٹینل کی ضرورت پڑی تو اسے کاٹ چھانٹ کر سنتری بنا دیا۔ لیکن جلد ہی یہ خود اعتمادی ہوا ہو گئی اور یاروں نے اردو کو کشکول دے کر دوسری زبانوں کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔
عجب نہیں کہ کل کو یہی لوگ لٹھ لے کر لالٹین کے شیشے بھی توڑ ڈالیں کہ انگریزی (بلکہ انگریزی کیوں، انگلش) میں یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے۔
میرے خیال سے ہمیں اردو کو ایک خودمختار اور مستقل بالذات زبان تسلیم کر لینا چاہئیے اور جو لفظ دوسری زبانوں سے آ کر اس کا حصہ بن گئے ہیں انہیں اردو کا لفظ ہی مان لینا چاہئیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دنیا کی دوسری بڑی زبانیں کرتی ہیں۔ ورنہ ہمارے ساتھ وہ معاملہ ہو گا کہ؛
؎ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے