دیوان ساون مَل کی سمادھی؛ ملتان کی گمشدہ تاریخ کا ایک باب

دیوان ساون مَل کی سمادھی؛ ملتان کی گمشدہ تاریخ کا ایک باب
اگر دو سو سالہ قدیم مقبرے، مزار، سمادھی یا کسی تاریخی عمارت کے درودیوار پر اُپلوں کی پھُلکاریاں ہوں، داخلی راستوں پر کوڑا کرکٹ، گندگی اور گوبر کے تہہ در تہہ ٹیلے ہوں، قدم رنجہ فرمانے پر کائی زدہ بدبودار ٹوبے اور تالاب آپ کے پاؤں چُوم رہے ہوں، اگر کسی گمنام داستان کے درو دیوار ٹھیکری بہ ٹھیکری سیم زدہ زمین اور کیچڑ میں دَب رہے ہوں، اگر اُس کی چار دیواری اندر گایوں بھینسوں کے چَھپڑ ہوں، اِحاطے کے چہار جانب بِلا نظم، بے ترتیب کچے پکے کوٹھے ہوں، بد نظمی اور لاپرواہی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک شہر کی تاریخ کو نوچ کاٹ رہی ہو اور مقبرے اندر تین چار خاندان بَسر اوقات کر رہے ہوں، شادی بیاہ، موت فوت کے رسوم و رواج پورے کئے جاتے ہوں، چولہا جلتا ہو، رنگ چُونا، گارا مٹی اِدھر اُدھر، یہاں وہاں پھیلتا بکھرتا ہو، دھواں دھواں حُقے گڑگڑاتے ہوں، کپڑے دھوئے، سُکھائے جاتے ہوں، بچے نہلائے دُھلائے جاتے ہوں، کُھلی نَکاسی والے پُرانی طرز کے باتھ رُوم اِستعمال کیے جاتے ہوں، کچرا اور کاٹھ کباڑ ٹِھکانے لگایا جاتا ہو، گندگی پھیلائی سجائی جاتی ہو، صابن زدہ پانی، انسانی اور گائے بھینسوں کا فُضلہ جگہ جگہ ہنگامے کرتا پھرتا ہو۔۔۔!

دیوان ساون مل سمادھی کی مشرقی دیوار


اور اگر آپ اندر سے مقبرہ یا دوسرے لفظوں میں کسی تاریخی شخصیّت کا مَدفن دیکھنے پر اصرار کریں تو دھوتی باندھے ایک اَدھ ننگا آدمی آپ سے کُھردرے لب و لہجے میں کہے؛ 'جناب کڑک دوپہریں ہے، اندر اماں اور بھابی سوئی ہوئی ہیں (یعنی دو صدیاں پرانی راکھ پر سوئی ہوئی ہیں)، آپ پھر کسی وقت تشریف لائیے گا' اور تھوڑی بہت بات چیت کرنے سے آپ کو معلوم پڑے کہ کم و بیش ایک ایکڑ اِحاطے کے اندر رہنے والے کُنبے کا خیال ہے کہ یہ مقبرہ اور چار دیواری اُن کو اِلاٹ کر دی جائے کیونکہ وہ تین چار نسلوں سے یہاں پر مقیم ہیں تو آپ کا صوبائی حکومت، مُتعلقہ اداروں بشمول والڈ سٹی اتھارٹی، آثارِ قدیمہ، متروکہ وقف املاک بورڈ یا ضلعی انتظامیہ کی غیر ذمہ داری یا لا پرواہی یا تعصب بلکہ جہالت کے بارے میں کیا خیال ہو گا؟ یہاں تک کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ کس محکمہ کے دائرہِ کار میں شامل ہے؟

سمادھی دیوان ساون مل کی مخدوش حالت


ہَشت پہلوی گنبد نُما یہ عمارت دیوان ساون مَل کی سَمادھی ہے، جو اُس کے بیٹے دیوان مُولراج نے 1844 میں عام خاص باغ کے شمال مشرقی حصے میں تعمیر کروائی تھی، کیونکہ یہیں اُس کا قتل ہوا تھا اور یہیں اُس کی چتا جلائی گئی تھی اور یہ باوا صفرا روڈ پر، دربار شاہ شمس سے تھوڑا آگے دائیں جانب، عقب ولایت حسین کالج موجود ہے؛ گنبد کے اُوپر وسط میں اِس کا کلس ٹوٹا ہوا ہے اور گولائیوں میں شَگاف پڑ چکے ہیں، طوفان، آندھی اور گرمی سردی کے تھپیٹرے سہنے سے سمادھی کا رنگ کالا بُھورا اور داغدار ہو چکا ہے۔ مخروُطی گولائی کی پھول پتیاں گِر چکی ہیں اور منقش حصہ بے رنگ، بے شکل ہو چکا ہے؛ بیرونی مِحرابوں کی قطع بے وضع ہو چکی ہے؛ اور لگتا ہے یہاں پر رہنے والوں نے درودیوار سے ہوا خوری کیلئے خود سے چار چار اینٹیں نکال پھینکی ہیں۔ بجلی کے تار اور کیبل یہاں وہاں سے اَندر گُھسائے ہوئے ہیں۔

سمادھی کی بُنیاد سے چار فٹ ہَٹ کر بنایا گیا مُثمن چشمہ جسے ایک کنواں بھرا کرتا اور تازہ پانی کُلکاریاں کرتا تھا، اب بدبُودار پانی کا تالاب بن چُکا ہے، سمادھی اور بیرونی زمین کی درمیانی پُلیاں بُھر بُھرا چکی ہیں۔ یقیناً اِتنے عرصے بعد تالاب کی بنیادوں میں دراڑیں پڑ چکی ہوں گی اور پانی زمین میں سرایت کر رہا ہوگا۔ اور اگر ایسا ہو رہا ہو تو پوری سمادھی کسی بھی وقت پَل کے پَل میں تلپٹ ہو سکتی ہےـ تقسیم سے قبل تک عام خاص باغ میں ماگھ کے ابھرتے ہوئے اور بھادوں کے ڈوبتے ہوئے چاند کے دنوں میں ہنستا کِھلکھلاتا میلا مُنعقد ہوتا تھا، موُل چند کے ناول (1900) بگلا بھگت میں بھی اِس کا ذکر ہے؛ سناتن دھرم سکول کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ باغ ہندوؤں کا سماجی، ثقافتی مرکز بھی تھا اور سخی سرور کے عرس پر جانے والے سنگھ بھی یہیں قیام کرتے تھےـ لیکن اب آس پاس کے دالان و میدان کا حُلیہ ہی بگڑ چُکا ہے۔ صرف گائیں بھینسیں اور گھوڑے میل ملاپ کرتے ہیں۔

عام خاص باغ کا شمال مشرقی حصہ جہاں ساون مل کی سمادھی ہے


افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ دربار شمس سبزواری کے آس پاس کے لوگ اِس سَمادھی سے ہرگز واقف نہیں ہیں بلکہ صرف اور صرف کچھ بزرگ مندر والی گلی کو جانتے ہیں جو گھوم پھر کر مُتلاشی سیاحوں یا محققوں کو ایک مایوس کُن احاطے میں لا کھڑا کرتی ہےـ

ساون مَل قدیم شہر ملتان کا 1821 سے 1844 تک حُکمران رہا اور اِس سے پہلے شجاع آباد اور کشمیر کا مشیرِ مالیات بھی۔ وہ ایک تجربہ کار منتظم اور قدرے مُنصف مزاج حکمران سمھجا جاتا ہے اور تاریخ نویس مختلف حوالوں سے اُسے نسبتاً بہتر حُکمران قرار دیتے ہیں۔ اس نے شہر میں نا صرف امنِ عامہ قائم کیا بلکہ 1818 کی رنجیتی جارحیت کے بعد قلعہ مُعلیٰ ملتان کی دوبارہ تعمیر و تقویّت بھی کرائی بلکہ بُہت سی نئی عمارات اور باغات مثلاً مرمت عام خاص باغ، شوالہ بوہڑ دروازہ، پختہ تالاب سورج کنڈ، مکاناتِ بدھلہ سنت، دروازوں اور النگ کے بیرونی پُشتے وغیرہ بنوائے؛ آبپاشی کے نطام کو بہتر کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ لگان وصول ہو سکے اور وہ دو تہائی خراج رنجیت سنگھ کو عطا کر کے اُسے مُطمئن رکھ سکےـ بصورتِ دیگر ملتان کی غارت گری طے تھی کیونکہ رنجیت سنگھ سانول مَل سے پہلے تین حکمرانوں کو شہر کی صوبیداری سے محض بہ تقاضہ مالیہ وصول نہ ہونے کی وجہ سے بے دخل کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال چُکا تھا۔

مصنف دیوان ساون مل کی سمادھی کے سامنے


اگر معاملہ صِرف غفلت کا ہو تو قلعہ کُہنہ مُلتان کی بہت سی یادگاروں کی ایک سے زیادہ مرتبہ مُرمت ہو چکی ہے اور اگر وسائل کا ہے تو بہت سے مزارات کی بھی خیال داری اور بہتری بڑی حد تک وقفے وقفے سے جاری رہتی ہے جس میں رکنِ عالم، بہاؤ الدین زکریا اور شاہ شمس کے دربار وغیرہ کی مرمت شامل ہے جو کہ بِلا اعتراض اچھی بات ہے۔ مگر سمادھیوں، مندروں، گردواروں، بدھ مت کی یادگاروں اور نہایت قدیم عمارتوں کی تعمیر و مُرمت بھی انتہائی ضروری ہے جو نا صرف ہماری رواداری اور مساوات پسندی کی اچھی مثال قائم کرنے میں مدد دیں گے بلکہ مُتعلقہ شہر اور زیرِ تذکرہ مُلتان کی تاریخ کو محفوظ و معروف بنانے میں بھی مدد دیں گے کیونکہ بعض صورتوں میں تاریخ کے کچھ پہلوؤں کو پُرانی عمارات و آثار کے ذریعے قیاس آرائی سے بھی دوبارہ زندہ کیا جاتا ہےـ ساتھ ہی ساتھ مُقامی اور ہمسایہ ممالک سے آنے والے فوٹو گرافرز، سیاحوں اور تحقیق کاروں کے دوروں سے اچھا زرِ مُبادلہ کمانے میں بھی مدد مِل سکتی ہےـ

کچھ اور تاریخی مقامات مثلاً بوہڑ دروازہ، حرم دروازہ اور النگ کی تعمیر و مرمت بھی اِنتہائی ضروری ہے بلکہ جہاں جہاں سے یہ دیوار مِٹی اور غیر قانونی مکانات اور بازاروں میں پھنس، دھنس چُکی ہے، اُس کو وہاں سے باہر نکالنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ النگ کی شان و شکوہ نظر آ سکےـ کئی ایک مُقامات سے فصیل اور بُرجیوں کے پاؤں خستگی کی آخری حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ بس زلزلے کا ایک جھٹکا یا دو چار برساتیں اُنہیں زمیں بوس کرنے کے لئے کافی ہیںـ اور اِس کے ساتھ ہی ہزار بارہ سو سال کی تاریح دھڑام سے نیچے آ گرے گی۔

قلعہ ملتان کی مخدوش برجی


بہاؤ الدین زکریا کے دربار سے مُتصل پرہلاد کا مندِر بھی تقریباً دو ڈھائی ہزار سالوں کی طرز تعمیر اور ملتان کی قدامت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ کُچھ تاریخی داستانوں میں یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کی اہم ترین رسم دیوالی پرہلاد بھگت کی یاد بطور شروع ہوئی تھی جو فطرت پرست کثیر دیوتا ہندو روایّت کے برعکس بھگوان واحد کی پرستش پر یقین رکھنے کے سبب اپنے باپ کے غیض و غضب کا شکار ہواـ مگر اپنے باپ کے بعد ملتان کی فرماں روائی اختیار کرنے کی وجہ سے عہد قدیم میں مُلتان کا پرہلاد نگر کے طور پر جانا جانا بھی اُس کے عہد کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہےـ مندر پرہلاد اور سمادھی ساون مَل پہلے بھی زیادہ اچھی حالت میں نہیں تھے مگر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد انتہا پسند مسلمانوں کے ہاتھوں اِنتقامی کارروائی کا نشانہ بننے کے بعد دونوں کی حالت نیم کھنڈر کی سی ہو گئی ہےـ دیوار شریک یا خوش باش ہمسایہ مزار دو مضروب و اشک بار سمادھیاں ہماری تاریخ شناسی پر کھلا تبصرہ ہیں اور آج تک ہر آنے جانے والے کو اپنا چھلنی سینہ اور ٹوٹے ہوئے دست و بازو دکھا دکھا کر شرمندہ کرتے ہیں۔

سمادھی دیوان ساون مل کی بیرونی دیوار کا منظر


مزارات پر زائرین کے چندے سے محکمہ اوقاف کو سالانہ خطیر آمدنی ہوتی ہے اور وقف املاک بورڈ کے پاس بھی کافی وسائل ہیں اور اُن کی آمدنی سے جہاں مزارات کی تعمیر و مرمت جاری رہتی ہے وہیں تاریخی مقابر، مندروں، سمادھیوں اور سٹوپوں کی تعمیر و مرمت کیوں نہیں ہو سکتی یا کیوں نہیں کی جاتی؟ صرف اس لئے کہ اُن کا دین کوئی اور تھا مگر اُن کی مقامیت اور تاریخ میں کردار سے (چاہے وہ جیسا بھی ہو) کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی خطے، علاقے اور دَور میں ہو، حُکمران کا دین فقط حکمرانی ہی ہوتا ہے اور بس۔

اور کچھ نہیں تو پانچ چھ دہائیوں سے قابض کُنبے سے یہ اِحاطہ اور مقبرہ خالی کروا کے دو تین گارڈ ہی بٹھائے جا سکتے ہیں تا کہ جب تک اربابِ اختیار کی عقل اِس طرف مبذول نہیں ہوتی اُس وقت تک اِسے مزید بَربادی اور رِہائش بُردگی سے بچایا جا سکے۔

مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں