ایک دن صبح کے وقت ابو نے کہا کہ مجھے تھوڑا سا کام ہے اس لیے میں آج دفتر دیر سے جاؤں گا، آپ اکیلے یونیورسٹی جاؤ اور موٹرسائیکل پر مت جانا۔ میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں، مجھے گھر سے یونیورسٹی تک تین، چار گاڑیوں میں جانا پڑتا ہے، دو تین گاڑیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے میں نے یونیورسٹی کے دوست اسامہ کو میسج کیا اور یہ لکھا کہ جناب آپ کہاں ہو؟ اس نے بتایا کہ ابھی گھر سے نکل رہا ہوں۔ پھر میں نے میسیج کے بجائے کال کو ترجیح دی اور اسامہ کو بتایا کہ ایک بندہ مردان میں، مقام چوک پر آپ کے انتظار میں کھڑا ہوگا۔
اس نے کہا کون سا بندہ؟ میں ہنسا اور کہا جس نے آپ کو کال کی ہے۔ اس نے کہا میں ابھی نکل رہا ہوں اور آپ مقام چوک پر کھڑے ہوجائیں۔ یہ بولتے ہی اس نے فون کاٹ دیا۔ میں مقام چوک پہنچا اور دیکھا تو میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہ پہنچ چکا تھا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا یار میں تو وہاں کھڑا تھا۔ اس نے کہا چلو بہانہ اچھا ہے۔
یونیورسٹی پہنچے تو ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے دس پندرہ منٹ نارمل حالت میں آنے میں لگ گئے۔ کلاسز ختم ہوئیں تو گھر واپسی پر اسامہ نے کہا میرا تھوڑا سا کام ہے، آپ کو کالج چوک تک میں ڈراپ کر دوں گا۔ کالج چوک پہنچے تو شدید سردی سے میرا جسم کانپ رہا تھا، جیسے تھوڑا سا بخار ہو رہا ہو۔ جیسے ہی میں اسامہ کے موٹرسائیکل سے اترا تو دو تین منٹ بعد ایک گاڑی سے اردو بولنے والی لڑکی نے مجھے آواز دی اور کہا کہ ایک منٹ۔ ہم تخت بھائی آثار قدیمہ جارہے ہیں۔ میں نے فوراََ کہا تخت بھائی آثار قدیمہ تو ہمارے علاقے میں ہے، تو اس نے پوچھا کہ بھائی کتنے کلو میٹر دور ہوگا، میں نے کہا تقریباً اٹھارہ، بیس کلو میٹر دور ہوگا۔ اس کی ماں نے کہا بیٹا دراصل ہمیں راستہ ٹھیک طریقے سے معلوم نہیں ہے اور راستہ پوچھ پوچھ کر بہت تھک گئے ہیں، اگر آپ ہمارے ساتھ گاڑی میں چلیں تو بار بار راستہ پوچھنا نہیں پڑے گا۔ میں نے جان چھڑوانے کے لئے کہا، میں ابو کا انتظار کررہا ہوں ابھی آ جائیں گے تو ان کے ساتھ جاؤں گا۔ انہوں نے کہا تھوڑا سا انتظار کرتے ہیں آپ کے ابو کا۔ دو تین منٹ، میں نے گاڑی میں سب پر نظر ڈالی تو خاصی شریف فیملی نظر آئی۔
میں نے فون جیب سے نکالا تو انہوں نے کہا اپنے ابو کو کال کر کے بتائیے ناں تو مجھے احساس ہوا کہ لوگ اچھے ہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ تو میں نے موبائل کو ویسے ہی کان تک اٹھایا اور پیچھے سے گاڑی کا نمبر دیکھ کر ذہن میں بٹھا لیا۔ میں نے بتایا کہ ابو نے کہا ہے کہ ٹھیک ہے چلے جاؤ تو یہ سنتے ہوئے وہ خاصے خوش ہوئے۔ گاڑی میں پانچ لوگوں کی جگہ تھی لیکن جتنا میں کمزور تھا تو اتنی ان میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا بھی کمزور تھیں تو کافی آرام سے بسم اللہ کے ساتھ میں پیچھے بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ گاڑی میں پیچھے دو لڑکیاں اور ایک لڑکے نے گفتگو شروع کی۔
تخت بھائی پہنچے تو بدقسمتی سے فلائی اوور کو مرمتی کام کے وجہ سے بند کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے نیچے راستے پر کافی زیادہ رش تھا۔ گاڑیوں کے گزارنے کے لئے ٹریفک پولیس نے بڑی گاڑیوں کو راستہ دیا ہوا تھا اور چھوٹی گاڑیوں کو دس بارہ منٹ کے لئے بند کیا ہوا تھا تو اس وقت بڑے میاں نے مجھ سے پوچھا بیٹا آپ کا نام کیا ہے میں نے بولا 'کاشف' میرا نام سنتے ہی ان سب کے چہروں اور لبوں پر ہلکی پھلکی سی ہنسی یک بیک ختم ہو گئی۔ وہ سب خاموشی کے عالم میں ڈوب گئے، ان میں سے ایک لڑکی مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی اور اتنی جلدی کچھ کہہ دیا کہ میں کچھ سمجھ ہی نہ پایا تو وہ دوسری لڑکی نے اسے کہا ارے آپ بھی نا۔ خیر ان کے درمیان ارے آپ بھی نا کہنے کے تھوڑی دیر بعد ہنسی و مذاق دوبارہ شروع ہوا۔ جو میرا نام 'کاشف' سننے کے ساتھ ہی ختم ہوا تھا۔
ٹریفک کی روانگی بھی شروع ہوئی۔ تو تھوڑی ہی دیر میں میرے گھر کا راستہ آنا تھا۔ ذہن میں ایک بات آئی کہ ارے تو آثار قدیمہ تک ان کے ساتھ جاؤں، اگر گھر کے راستے میں الگ ہوجاؤں گا تو ان لڑکیوں نے نہ ہی دوپٹہ پہنا ہے اور نہ ہی پختون معاشرے جیسا لباس، کوئی مجھے دیکھ لے گا تو ضرور کچھ نہ کچھ کہے گا۔ ان لاہوریوں کو آثار قدیمہ تک پہنچایا تو میں نے کہا اب میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔ تو بڑے میاں نے کہا بیٹا ہمارے ساتھ گھوم لو نا۔ تو میں نے بولا انکل میں کافی لیٹ ہوگیا ہوں۔ تو انہوں نے کہا چلو بیٹا بہت شکریہ اور لڑکی نے ساتھ میں یہ بولا ارے آپ بھی نا۔ یہ جملہ میں نے اُن لاہوریوں سے سیکھا تھا اور اب یہ جملہ میں ہر جگہ اور ہر وقت استعمال کرتا رہتا ہوں۔ تاکہ میں اُس خاموشی تک جا پہنچوں جو میرے نام 'کاشف' کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔