ماسٹرز کی ڈگری برائے فروخت

ماسٹرز کی ڈگری برائے فروخت
ایک تعلیم دان کی حیثیت سے انٹرویوز کرنا میرے پیشے کا حصہ ہے، اور میں نے بہترین سی ویز کے حامل کئی افراد کا انٹرویو کیا ہے۔ ان صفحات میں ان کے مستقبل کے حوالے سے ارادے اڑان بھرتے نظرآئے۔ تقریباً تمام ہی امیدواروں نے پیشہ ورانہ اورکٹھن ماحول میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مگر انفرادی ملاقاتوں کا احوال کچھ مختلف رہا۔

اس مکالمے کو ہی لے لیں جس کا آغاز جو کچھ ایسے تھا:"غالب میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔"

اوہ، بہت بہترین! تب کیا آپ غالب کے چند اشعار پڑھنا چاہیں گے؟"

دراصل، میں نے اردو میں ماسٹرز چھ ماہ پہلے کیا تھا، مجھے غالب کا کوئی شعر یاد نہیں، لیکن میں اقبال کے کلام 'شکو، جواب شکو' سے چند اشعار پڑھ سکتا ہوں: "محبت مجھے ان جوانوں ۔۔۔۔۔۔"

مجھے اندازہ نہیں کہ مندرجہ بالا مکالمے کو مزاحیہ کہا جائے، ستم ظریفی قرار دیا جائے، یا افسوسناک امر کے طر پر دیکھا جائے، یا یہ تمام ہی؛ کہ ایک تازہ ایم اے گریجوایٹ فرد نہ تو شکوہ جواب شکوہ کا صحیح تلفظ ادا کرسکے نہ غالب کا ایک شعر ہی پڑھ کر سنا سکے۔

میری یادداشت مجھے گزشتہ دہائی کے دوران کیے جانے والے ایسے کئی انٹرویوز کی طرف لے جاتی ہے۔ افسوسناک بات یہ کہ حساب اور سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل زیادہ تر افراد اپنے مضامین سے بس اتنے ہی مانوس تھے۔ مگرسب سے عجیب مکالمہ فزکس کے ایک گریجوایٹ سے رہا۔
"آج میں بچوں کو اسطرح 'ایریا' اور 'والیوم' نہیں سمجھانا چاہتا جسطرح میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ بی ایس سی کے درجے پر ہم زیادہ پیچیدہ 'اکویشنز' حل کرتے ہیں، جس میں جمع و تفریق، ضرب و تقسیم نہیں پڑھایا جاتا۔"

ایسے تمام طالب علموں کی کثیرتعداد میں ایک قدر مشترک تھی اوروہ یہ کہ انہوں نے اپنی ڈگریاں پنجاب اورخیبرپختونخواہ کی مختلف جامعات سے بطور پرائیوٹ طلبا حاصل کی تھیں، یا انہیں شعبئہ سائنس میں محلقہ کالجز کے طلبا کی حیثیت سے داخلہ دیا گیا تھا۔ اکثریت نے کبھی کالج اٹینڈ نہیں کیا تھا۔ میں اکثرسوچا کرتا تھا کہ مذکورہ بالا طلبہ کی اپنے ہی مضامین میں معلومات اتنی ناقص کیوں تھیں، اس بات کا جواب مجھ سےدوررہا، تاآنکہ میں نے خود ماسٹرز کی ڈگری کے حصول کا فیصلہ کیا۔

اسلام آباد میں ایک اعلی درجے کے اسکول کے سابق استاد محترم 'کاوہ' نے مجھے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ انہوں نے بی ایڈ کے ہرپیپر کی تیاری کے لیے فقط ایک، ایک دن مختص کیا اور سب میں کامیاب بھی ہوگئے۔ اسی طرح ایک دوست کی بہن نےایم اے اردو کی تیاری کھانا پکاتے ہوئے کچن کاؤنٹر پر رکھی ہوئی کتاپ پڑھتے ہوئی کی، اور وہ بھی کامیاب ہوگئیں۔

مجھے اپنا ارادہ ممکن محسوس ہوا۔ تب میں نے محترم 'کاوہ' سے داخلے کے حوالے سے مدد کی درخواست کی۔ جب تاریخ قریب آلگی تو مجھے یونیورسٹی میں رجسٹریشن کے لیے ایک لاکھ روپے کی ارجنٹ فیس جمع کرانا پڑی۔ مجھے دس پیپرز کے لیے اتنی ہی تعداد میں گائڈ بکس دی گئیں۔ کچھ آپشنزبھی دیے گئے، جیسے کہ امتحان کے دن حاضری لگانے کے فوری بعد واپسی، یا پھر پیپر حل کیے بغیر جمع کرادینا، یعنی کسی اورکو اپنی جانب سے امتحان دینے کا اختیار دینا۔ آخری پیپر خود ہی دیا جانا تھا لیکن دانستہ کمتر کارکردگی کے ساتھ، وگرنہ میرے مارکس کم ہوجانے تھے۔

پاکستان میں ایک ماسٹرز ڈگری کا حصول اتنا ہی آسان ثابت ہوا۔ مجھے ڈگری کی ضرورت تھی تاکہ ملک سے باہر داخلے کے لیےاپنی پروفائل کومضبوط کرسکوں۔ 'سنگل پیرنٹ' کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہوئے میں نے ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے کا خواب بہت عرصہ ہوا بھلا دیا تھا، اور بلاخر اب وہ موقع مجھے فراہم کیا جارہا تھا۔

لیکن میرے ضمیر نے مجھے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ میں ایک استاد تھی اور اگر میں اس راستے پر قدم بڑھاتی تو کبھی استاد کی حیثیت سے اپنے طلبا کوعزت و تکریم کے رویے کی تلقین نہیں کرپاتی۔

بہرحال، مجھے اس تمام معاملے نے اداس کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے گلتے سڑتے نظام کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کی۔ اور مجھےمعلوم ہوگیا کہ سوال کیے گئے طلبا اپنےمضامین کے بارے میں اس قدرلاعلم کیوں ہوتے تھے۔ تواسطرح ان جامعات کے بورڈز کےتحت ملک بھرمیں کئی ہزار یا کم ازکم کئی سو طلبا اپنے امتحانات میں 'کامیاب' قرار پائے۔

ایک وجہ کہ طالب علم امتحان کے لیے ایسے طریقوں کا انتخاب کرتے ہیں، یہ کہ ہرسال ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل ہونے والے میٹرک کے طالب علموں کے لیے مناسب تعداد میں کالج اور جامعات موجود نہیں۔ بہت کم ہیں جو لمزاورنسٹ جیسے مانے ہوئے تعلیمی اداروں میں جگہ بنا پاتے ہیں، باقی تمام چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں موجود 'اسٹریٹ کالج' اٹینڈ کرتے ہیں، جن کا الحاق مختلف جامعات سے ہوتا ہے۔ ان کالجوں میں توجہ امتحان کے لیے رٹہ لگانےاورسابقہ پیپرزحل کرنے پرمرکوز کی جاتی ہے۔ مقصود 33 فیصد نمبرہوتے ہیں، جوحاصل بھی کرلیے جاتے ہیں، باقی ماندہ افراد بطورپرائیوٹ طلبا امتحان دیتے ہیں۔

انٹرمیڈیٹ اور سکینڈری امتحانات میں بھی ایسا ہی رجحان نظر آتا ہے۔ میڑک کا امتحان دینے والے طلبا کی اکثریت پاس ہوجاتی ہے، اوران میں سے بڑی تعداد 80 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کرتی ہے۔ گزشتہ برس انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری بورڈ، لاہورکے تحت ہونے والے امتحان میں کامیابی کی شرح حیران کن 98 فیصد رہی اوردرجنوں طلبا نے 1100 میں سے 1100 نمبرحاصل کیے۔ دوسرے صوبوں کے تعلیمی بورڈ بھی کچھ ایسی ہی کہانی بیان کررہے ہوتے ہیں۔

پھراس نظام سے برآمد ہونے والے ہزاروں افراد ملازمت کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ملک بھر کے گاؤں، ٹاؤن، اورشہروں کےغیرترقی یافتہ علاقوں کے تعلیمی شعبوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ خوشحال اورمتوسط طبقے کےعلاقوں میں ایک ہی گروپ آف اسکولز کی تعلیم کے معیار کا فرق نمایاں اورچونکادینے والا ہوتا ہے،عملہ کی تعیناتی علاقوں کے اعتبار سے کی جاتی ہے۔ معاملہ دائرے میں ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ وہی ڈگری ہولڈر اب استاد کی حیثیت سے طلبا میں علم منتقل کرتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ کے ایک گاؤں میں جب ایسے ہی ایک استاد سے گریڈ 6 میتھ کا سوال حل کرنے کو کہا گیا تو وہ نہ کرپائے۔ایک اوراستاد، جنہوں نے اسی علاقے کے کسی اور گاؤں میں بورڈ کے میٹرک کے امتحان میں 96 فیصد نمبر حاصل کیے تھے، میتھ کے15 سوالات میں سے صرف 1 حل کر پائیں۔ کہا جاتا ہے 'جیسی کرنی، ویسی بھرنی'۔

یہ دائرہ یوں ہی چلتا رہتا ہے، لیکن پاکستانی حکام اسکولوں پرجنگی انداز کے چھاپے مارنے کے حوالے سے زیادہ فکرمند معلوم ہوتے ہیں، تاکہ مذہبی ٹیکسٹ کا رٹہ، جینز پر پابندی، اور ڈوپٹہ، ٹوپی کو یقینی بنایا جاسکے، رہا ہمارے اخلاقی شعورکا اس کرپٹ تعلیمی نظام میں داؤ پرلگا ہونا، تو اس کی پروا تو ضروری نہیں۔




یاسمین اشرف کا یہ مضمون ڈان میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔