Get Alerts

گندے بچے کو صرف ایک تھپڑ

گندے بچے کو صرف ایک تھپڑ
وفاقی وزیر فواد چودھری کے تھپڑ کی میڈیا میں بہت گونج ہے۔ تجزیہ کار تھپڑ کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نیم صحافی صحافت پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ عمومی طور پر تھپڑ کی پذیرائی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یوں سمجھیں کہ حسب سابق ہاوس فل نمائش جاری ہے۔

میڈیا انڈسٹری بھی لاہور کی فلم انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ گجر دا ویر، آرائیں دا کھڑاک، طیفا بٹ اور ضدی راجپوت کی طرح ٹی وی چینلز اور اخبارات منظر عام پر آئے ہیں۔ جن پر زر خرید اینکرز مالکان کی مرضی کا سکرپٹ پڑھتے ہیں۔ مالکان بتاتے ہیں کہ آج کس کو رگڑا دینا ہے۔ اینکر اپنے مالک کی خوشنودی کے لئے تمام تر اخلاقی حدود سے بے نیاز بولنے والی مشین کی طرح بولتا جاتا ہے۔

ان میں زیادہ تر ٹی وی چینلز اور اخبار شیلٹر کے طور پر نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہیں۔ ایسے میڈیا ہاوسز پر وہی کچھ پیش کیا جاتا ہے جس مقصد کے لئے بنائے گئے تھے۔ مالکان اور ورکنگ جرنلسٹس کا فرق تھا۔ اب مالکان بھی صحافی ہیں ۔دوسری جانب سوشل میڈیا، یوٹیوب نے میڈیا کی کچرا کنڈی بنا دی ہے۔ کسی قسم کی کوئی تخصیص، تفریق، اخلاق و ضوابط سے مبرا شیشہ، پلاسٹک، چمڑا، ربڑ اور ہر قسم کے کوڑا کرکٹ کی بھر مار ہو چکی ہے۔

چوراچکے بھی پریس کارڈ جیب میں ڈالے پھر رہے ہیں۔ جرنلسٹس یونینز کی تقسیم در تقسیم اور مفادات کی بھینٹ چڑھ جانے کے باعث ذاتی یونین، ایسوسی ایشن، فورم اور تنظیمیں بنانے کے رجحان نے جنم لیا ہے۔ جن کے ذریعے کاروبار، فراڈ کیا جاتا ہے۔ پریس کارڈ فروخت کیے جاتے ہیں۔ شتر بے مہار کی مثال ہے۔ کوئی قانون و ضابطہ نہیں ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔

نیم صحافی کے ہمراہ ایک بڑی تعداد جعلی صحافیوں کی ہے جو دو تین پریس کلبوں اور کئی خودساختہ صحافتی تنظیموں کے کونسل ممبر بھی ہوتے ہیں۔ کسی ادارے کے باقاعدہ ملازم نہیں ہوتے ہیں بلکہ خود پیسے دیکر ادارے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ یونین اور پریس کلب کے اداروں کو میرٹ کے مطابق ورکنگ جرنلسٹس کی تعریف واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

پریس کلب اور یونینز کا ممبر صرف ورکنگ جرنلسٹس کو ہی بنایا جائے۔ ایک قسم ایسے اینکروں کی ہے جو مارکیٹنگ، فلم میکنگ اور نہ جانے کہاں کہاں سے ہو کر آتے اور سمجھتے ہیں کہ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر انہیں پگڑیاں اچھلانے کا لائسنس مل گیا ہے۔

یہ ایک ایسی مخلوق ہے۔ جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہ مختلف طریقے سے آتے ہیں۔ تمیز، اخلاقیات، کوئی ضابطہ، عزت و آبرو ان کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے۔ ٹی وی مالکان اتنے پیسے دیتے ہیں کہ یہ ننگا ناچنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور گھنگھرو باندھ کر ناچتے ہیں۔

ایسے تمام اینکر میڈیا ہاوسز میں صحافی کارکنان کے استحصال کا باعث بنتے ہیں۔ دس بیس کارکنوں کی تنخواہ کسی ایک اینکر کو دے دی جاتی ہے۔

 اہل صحافت اور عوام کی نظروں میں بھی یہ گندے بچے ہیں۔ ان گندے بچوں کا علاج صرف ایک تھپڑ نہیں بلکہ قانون سازی اور ضابطہ اخلاق کا نفاد ہے۔ اخبارات، ٹی وی، صحافتی تنظیموں، یونینز، ایسوسی ایشن، فورم کا ریویو کرنا ہے تاکہ تمام امور ایک ضابطہ کے مطابق انجام دیئے جائیں۔

تعلیمی اسناد سمیت تربیتی ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹس کی شرائط عائد کی جائیں۔ میڈیا ریاست کا ستون ہےاور ریاست میں میڈیا کا کردار ذمہ دارانہ ہے۔ ذمہ دارانہ صحافت ہی سیاسی و سماجی تعمیر میں میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ چیخ و پکار، سنسی خیزی اور شور و شرابا صحافت کا منہاج ہرگز نہیں ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا اور تجزیہ کرنا ہے۔ نشاندہی کرنا ہے۔ عزت اچھالنا، بلیک میلنگ نہیں ہے۔

 

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔