یہ فیصلہ مریم نواز کے حق میں آیا ہے

یہ فیصلہ مریم نواز کے حق میں آیا ہے
اس وقت ہمارے ٹوئٹر اور فیس بک پر دو طوفان برپا ہیں۔ دونوں طوفانوں کی نوعیت کچھ مختلف ہے۔ ان دونوں پلیٹ فارمز کی نوعیت بھی تو مختلف ہے۔ ٹوئٹر پر کم از کم فیس بک کی نسبت مختلف حالات ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فیس بک کی نوعیت ذرا نجی ہے۔ ٹوئٹر زیادہ عوامی ہے اور یہاں سیاسی بلوغت بہتر ہے۔

ہمارا کام یوں تو شام پانچ بجے ختم ہوتا ہے۔ لیکن کل طبیعت میں کچھ بے کلی سی تھی اس لئے گھر جلدی آ گئے۔ کچھ گھر والوں کا پریشر بھی تھا کہ ان کو ڈر تھا کہ کہیں شہر میں دنگے فساد نہ شروع ہو جائیں۔ تاریخی فیصلہ جو آنا تھا۔ گھر پہنچے تو والدہ صاحبہ جاگ رہی تھیں۔ حالانکہ یہ ان کے قیلولے کا وقت تھا۔ کمرے کی روشنی گل تھی اور مدہم آواز میں ٹی وی چل رہا تھا۔ جی، فیصلے کے انتظار میں تھیں وہ۔ شاید جج صاحب بھی فیصلے ہی کے منتظر تھے ہم سب کی طرح۔ ہم بھی انہی کے ساتھ براجمان ہو گئے۔

منتخب وزراء اعظم کی قسمت کس سے چھپی ہے


مزے کی بات یہ تھی کہ ہمیں انتظار تو تھا کہ تاریخ کیا موڑ لے لیکن کچھ کچھ پتہ بھی تھا کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ ملک کے منتخب وزراء اعظم کی قسمت کس سے چھپی ہوئی ہے۔ کبھی تو انہیں قتل کیا گیا اور کبھی تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اب تو پھر بھی بڑی بہتری آ گئی ہے صاحب۔ جی فیصلہ آ گیا۔ خدا کے فضل سے بات صرف دس سال قید بامشقت پر ہی ٹل گئی۔ نواز شریف صاحب کی صاحبزادی مریم نواز کو سات سال کی نوید سنائی گئی اور ان کے شوہر صفدر کو ایک سال کی۔



ہمیں نواز شریف کا جرم بخوبی سمجھ آتا ہے کہ وہ تو منتخب وزیر اعظم تھے۔ یہ فتنہ ہی آدمی کی خانہ ویرانی کو کافی ہے۔ مریم کا کیا قصور تھا ماسوائے اس کے کہ وہ ان کی بیٹی تھیں؟ خیر یہ قصور بھی کم نہیں۔

مریم نے ٹرینڈ بدلا


مسلم لیگ ن کا امیج کبھی بھی ایک پروگریسو جماعت کے طور پر نہیں رہا۔ عورتوں کا کردار اس جماعت میں کبھی کوئی خاص نہیں رہا۔ چار سال پہلے جب مریم نواز نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی سیاسی جگہ بنانے کی کوشش شروع کی تو کچھ بات بدلتی نظر آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں مکمل طور پر تحریک انصاف کا راج تھا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو سوشل میڈیا کی اہمیت کا کچھ خاص اندازہ نہ تھا۔ البتہ مریم نے یہ ٹرینڈ بدلا۔ ٹوئٹر پر عام مسلم لیگی سے بھی اپنا رابطہ بڑھایا۔ نواز شریف کو بھی روشن خیالی کی طرف کچھ کچھ راغب کیا۔ پارٹی کا نظریہ جو بھی ہوتا مریم اپنی آواز اٹھا ہی لیتی تھیں۔ ایک عام انسان جو صرف سوشل میڈیا پر ہی آواز اٹھا سکتا تھا اب مریم کے ذریعے نواز شریف تک رسائی حاصل کرنے لگا تھا۔

اب یہ مخالف پارٹی کے علاوہ پارٹی عہدے داروں کو بھی کھٹکنے لگی تھیں


بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم بھی مریم نے چلائی اور عملی سیاست میں حصہ لیا۔ اب یہ مخالف پارٹی کے علاوہ پارٹی عہدے داروں کو بھی کھٹکنے لگی تھیں۔ مریم کے خلاف ایک باقاعدہ مہم کا آغاز ہوا جس میں حسب توقع کردار کشی سے ہی آغاز لیا گیا۔



سچ پوچھیے تو ہمیں کبھی بھی یہ کوئی خاص ذہین نہیں لگتی تھیں۔ جب ان کا تقابل بینظیر بھٹو سے کیا جاتا تھا تو ہمارے دل میں آگ سی لگتی تھی۔ ٹھیک ہے اس لڑکی نے سوشل میڈیا کی طاقت کو جان لیا تھا لیکن سیاسی بلوغت سے بہت دور تھی۔ باوجود اس کے کہ اب یہ سر اٹھانے لگی تھی لیکن پھر بھی ابھی بہت وقت درکار تھا بھائی۔ نواز شریف کی سیاسی جانشین بننا ان کے بس کی بات نہیں نظر آتی تھی۔

لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس قید کے فیصلے نے مریم کا سیاسی قد ایک دم سے بڑھا دیا تھا۔ سات سال کے اس عرصے کے بعد اس سونے کو کندن بننے سے کون روک پائے گا؟ جس فیصلے پر بغلیں بجائی جا رہی ہیں اس کا یہ پہلو نظر انداز کرنا صریحاً بے وقوفی ہے۔

یہ جیل ہی تھی جس نے آکسفورڈ کی پڑھی پنکی کو سیاست میں امر کر دیا


وہ مریم جسے محض ٹوئٹر اور ایک آدھی سیٹ تک محدود رکھا جا سکتا تھا اب اس صف میں شامل ہو چکی ہے جہاں عورت کو محض اس کے باپ بھائی  کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ جیل ہی تھی جس نے آکسفورڈ کی پڑھی پنکی کو سیاست میں امر کر دیا۔ اس انتقامی سیاست نے ہی انہیں کندن بنایا۔ ہمارا ابھی بھی یہی کہنا ہے کہ ان کا مقابلہ بے نظیر کے قد سے کرنا لاحاصل ہے۔ لیکن اب شاید وقت پھر پلٹنے والا ہے۔ قوم کی باگ ڈور ایک بار پھر عورت کے ہاتھ میں آنے والی ہے۔ سات سال کے بعد یہ ناز و نعم میں پلی لڑکی کیا بن کر نکلے گی آپ بھی جانتے ہیں۔ الیکشن سے محض پندرہ دن پہلے آنے والا یہ فیصلہ کس جلدی میں دیا گیا ہے آپ بھی جانتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان کے جیل میں ہوتے ہوئے بیگم کلثوم نواز کو کچھ ہو گیا تو تاریخ کیا رنگ لے گی یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ اس فیصلے نے ملکی سیاست میں مریم کے آنے والے کلیدی کردار اور حیثیت کو کس قدر واضح کر دیا ہے آپ بھی جانتے ہیں۔

وہ مریم جسے آرام سے ایک آدھ میدان تک محدود رکھا جا سکتا تھا اب ایک سیاستدان بنا دی گئی ہے۔

یہ فیصلہ مریم نواز کے خلاف نہیں بلکہ حق میں نکلا ہے۔ یہ چال الٹی پڑ گئی بابو۔