سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کے بلامقابلہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر پارٹی کی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نیا دور ٹی وی پر صحافی مبشر لقمان کے انٹرویو کا حوالہ دینے ہوئے کہا کہ 2013 میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد میری کوشش تھی کہ میں سب کو ساتھ لے کر چلوں اور اسی لیے میں بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر ان سے ملنے بھی گیا۔ لیکن اس کے بعد عمران خان لندن چلے گئے، جہاں طاہرالقادری، چودھری پرویز الہیٰ اور پاک فوج کے ایک جرنیل موجود تھے اور اس دوران میری حکومت کو گرانے کے لیے دھرنوں کا منصوبہ بنا جسے لندن پلان کہا جاتا ہے۔
نیا دور کے ٹاک شو ' خبرسےآگے' میں سینئر صحافی مبشر لقمان نے رضا رومی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے لندن پلان کی تفصیلات بتائی تھیں کہ لندن پلان کے سلسلے کی کئی میٹنگز میں میں خود موجود تھا۔ مبشر لقمان نے بتایا تھا کہ 2013 میں اسلام آباد میں ملک ریاض کی رہائش گاہ پر وہ، محسن بیگ اور ایک حاضر سروس فوجی افسر موجود تھے جب ملک ریاض کو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کا فون آیا اور وہ اٹھ کر ان سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد واپس آئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جنرل ظہیر الاسلام کا پیغام لے کر وزیر اعظم نواز شریف کے پاس جا رہے ہیں۔
نواز شریف سے ملاقات کر کے لوٹے تو ملک ریاض کے چہرے کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔ مبشر لقمان کے مطابق انہوں نے بتایا کہ میں نے نواز شریف کو جنرل ظہیر الاسلام کا پیغام دیا کہ استعفیٰ دے دیں ورنہ گرفتاریاں ہوں گی۔ اس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ جو کرنا ہے کر لو، میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔ مبشر لقمان کے مطابق ملک ریاض جب واپس آئے تو غصے میں تھے اور کہہ رہے تھے کہ نواز شریف آرام سے بیٹھا ہوا ہے اور اسے کوئی فکر ہی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ نواز شریف نے مبشر لقمان کے اس واقعے کا بھی حوالہ دیا جو انہوں نے نیا دور ہی پر سنایا تھا کہ لندن میں ہونے والی ملاقاتوں میں مبشر لقمان خود بھی موجود تھے اور لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کا بل بھی مبشر لقمان ہی نے دیا تھا۔ یاد رہے یہ بات بھی مبشر لقمان نے پہلی مرتبہ نیا دور ہی کے پلیٹ فارم پر کی تھی۔
اپنی تقریر میں نواز شریف نے لندن پلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں عمران خان کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا اور وہ فوجیوں کے ساتھ مل کر مجھے گھر بھجوانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیاست محض یہی ہے کہ وہ فوجیوں کے کندھوں پر بیٹھ کر آیا ہے اور دھرنے کے دوران بھی امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرتا رہا تھا۔
نواز شریف نے اپنی تقریر میں جنرل ظہیر الاسلام کی اس تقریر کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے اس ملک کی سب پارٹیوں کو ٹرائی کیا اور پھر ہم نے سوچا کہ ایک تیسری قوت کو سامنے لانا چاہیے۔ نواز شریف نے سوال کیا کہ عمران خان بتائیں وہ تیسری سیاسی قوت کون سی تھی؟ کیا جنرل ظہیر الاسلام عمران خان کو اقتدار میں لانے کی بات نہیں کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ اگر جنرل ظہیر الاسلام کا اشارہ عمران خان کی طرف نہیں تھا تو میں سیاست سے ریٹائر ہو جاؤں گا۔