کیا پاکستان میں لگنے والی چینی سائنو ویک ویکسین کرونا کے خلاف حفاظت مہیا کرنے میں ناکام ہے؟

کیا پاکستان میں لگنے والی چینی سائنو ویک ویکسین کرونا کے خلاف حفاظت مہیا کرنے میں ناکام ہے؟
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں کرونا کی چوتھی لہر کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اس کی وجہ وائرس کی بھارتی قسم کو قرار دیا ہے۔
دوسری جانب این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے بھی ایک ٹویٹ میں یہ کہا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ پاکستان میں کرونا کی چوتھی لہر آسکتی ہے جس کے آثار اب دکھائی دینے لگے ہیں۔
این سی او سی کے سربراہ نے جلد ویکسینشن کرانے پر زور دیا۔
پاکستان میں ویکسین کی صورتحال
صرف پنجاب کی بات کی جائے تو لاہور کے بڑے ویکسینشن سینٹر ایکسپو تک میں چینی ویکسین جو کہ پاکستان کی ویکسینیشن ڈرائیو میں سب سے زیادہ استعمال ہو رہی ہے غائب ہے اور حتی' کہ جن افراد کی دوسری ڈوز باقی ہے انہیں نہیں معلوم کہ وہ کب اسے حاصل کر سکیں گے۔ کراچی سے بھی اس سے ملتی جلتی اطلاعات ہیں۔ ویکسینیشن سینٹرز کو ہفتہ وار تعطیل کے بہانے سے بند کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اکثر شہری بغیر ویکسین کے واپس آرہے ہیں۔ دوسری جانب سائنو فارم کی عدم موجودگی میں سائنو ویک نامی ویکسین سب سے زیادہ لگائی جا رہی ہے۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ نے سائینو ویک کی کرونا وائرس اور خاص کراسکی بھارتی قسم کے سود مند ہونے پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ اور اس ضمن میں بی بی سی کی جانب سے انڈونیشیا کی مثال پیش کی گئی ہے۔
انڈونیشیا میں ویکسین لگوانے کے باوجود ہلاکتیں ہوئیں۔
انڈونیشیا میں صحتِ عامہ کے کارکنان کی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سال فروری سے جون کے درمیان کم از کم 20 ڈاکٹر اور 10 نرسیں ویکیسین لگائے جانے کے باوجود وفات پا گئے ہیں۔

ماہرین کا اب مطالبہ ہے کہ ڈاکٹروں کو چینی ویکسین سائنو ویک کی تیسری خوراک دی جائے۔ سائنو ویک ان چند چینی ویکسین میں سے ایک ہے جو کہ پاکستان میں بھی بہت سے لوگوں کو حکومت کی جانب سے لگائی جا رہی ہے۔
بظاہر سائنو ویک کورونا وائرس کی حال ہی میں سامنے آنے والی نئی اقسام کے خلاف اتنی موثر نہیں ہے۔ پاکستان میں حکام نے ملک میں نئی اقسام جیسے کہ ڈیلٹا قسم کے کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ادھر انڈونیشیا میں حکام بھی نئی اقسام کے کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کوئی اثر نہیں‘
انڈونیشیا میں اس وقت روزانہ کے 20000 نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ دارالحکومت جکارتہ کے باہر بہت کم ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے۔مگر جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے وہ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ یہ چینی ویکسین کتنی حفاظت کرے گی۔اس سال فروری سے جون کے دوران 949 ہیلتھ کیئر ورکروں کی اموات ہوئی ہیں جن میں سے 20 ڈاکٹروں اور 10 نرسوں کو سائنو ویک کی دونوں خوراکیں لگ چکی تھیں۔

پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ایک ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھیں ویکسین کی دونوں خوراکیں لگ چکی ہیں مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ویکسین لگوانے کے ایک ماہ بعد انھوں نے اپنا اینٹی باڈی ٹیسٹ کروایا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کیا ان کے جسم میں ویکسین نے قوتِ مدافعت پیدا کی ہے کہ وہ اس وائرس سے لڑ سکیں۔

امریکا میں بھی ویکسین کے حوالے سے شکوک شبہات
امریکا میں بھی فائزر اور دیگر ویکسینز کے حوالے سے دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لوگ اسکی تیسری ڈوز بھی لگوائیں لیکن تا حال حکومت کی جانب سے اسکی اجازت نہیں دی گئی۔