یہ وجاہت رؤف صاحب کیا ایک اوسط سے کم ذہانت، تخلیقیت اور فلم میکنگ کے علم کے حامل شخص ہیں یا یہ پاکستانی قوم کو چغد سمجھتے ہیں؟ موصوف پہلے دو فلموں کے ذریعے ایسی ایسی چولیں مار چکے ہیں کہ بندہ اپنے پاکستانی ہونے پر شرمندہ ہو جائے۔ خاص طور پر ان کی فلم لاہور سے آگے میں کامیڈی کے نام پر ایک ہکلاتا شخص بس میں لوگوں کو گدگدی کرتا ہے اور سچویشن کے نام پر آدم خور قبیلہ ایک نغمے کے لئے نمودار ہوتا ہے اور نغمے کے فوراً بعد غائب ہو جاتا ہے۔
بنیادی طور پر وجاہت رؤف پروڈکشن کے آدمی ہیں اور ڈائریکٹرز کو اسسٹ کر کے لائیٹیں، کیمرہ، سیٹ وغیرہ سیکھ لیے ہیں۔ بھائی اب آپ فلم بنانا چاہتے ہیں تواب چونکہ آپ کو لکھنا تو آتا نہیں لیکن پھر بھی سٹوری خود لکھنی ہے تو وہی حال ہو گا جو بندے کے پیسوں آپ کی فلم دیکھتے ہوئے ہوتا ہے۔
ایک دیہاتی زمیندار جو اردو تو بول نہیں سکتا لیکن کمپیوٹر کی ٹرمینالوجیز ہر دوسرے جملے میں استعمال کرتا ہے۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک مہوش حیات اور دوسری زارا عباس۔ زارا پنجابی لہجے میں اردو بولتی ہے لیکن مہوش کا لہجہ بالکل صاف کیوں ہے؟ فلم اس کی کوئی وضاحت نہیں پیش کرتی۔ ان کا ایک بیوقوف سا بھائی ہے جو ڈائریکٹر کا اپنا سولہ سالہ فرزند ہے۔ مہوش سے قد میں دو انچ چھوٹا، ناک پر رولر پھروائے، اظفر رحمان، اس کا عاشق ہے۔
اس کا دوست اسد صدیقی جعلی پیر ہے جس کے پاس زمیندار اپنی بیٹی کے عشق کا بھوت اتارنے کے لئے وظیفہ لینے جاتا ہے۔ اپنے دوست کی تصویر دیکھ کر وہ پیر دوڑ لگا دیتا ہے لیکن اگلے سین میں وہ زمیندار کی حویلی میں عزت و احترام سے وارد بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ اظفر اور اسد آپس میں خالص کراچی کی بولی میں ابے ابے کرتے وہ جگتیں لگاتے ہیں جو صرف ملیر پندرہ نمبر کے رہنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔
اظفر بھی پیر کے ساتھ اس لئے ہوتا ہے کہ چوہدری اس کی واحد تصویر پیر کو دے چکا تھا۔ اظفر اور مہوش اور اسد و زارا کی ایک بے تکی لو سٹوری چلتی ہے جو اتنے مضحکہ خیز ٹوئسٹ اور ٹرن لیتی ہے کہ بندہ سر پیٹ لے۔
چوہدری آخری سین میں پیٹ پر گولی کھانے کے باوجود پل پر کھڑی مہوش اور دو سو فٹ نیچے اظفر کا نکاح پڑھواتا ہے اور اگلے سین میں ناقابلِ فہم طریقے سے صحت یاب ہو کر گانا گانے لگتا ہے۔
ٹھیک ہے بھائی ہم ٹیکنالوجی میں، تجربے میں انڈیا سے پیچھے ہیں لیکن کیا ہم تخلیقی طور پر اتنے ہی بانجھ ہیں جتنے یہ ہدایتکار صاحب ہیں؟ ہرگز نہیں۔
مہوش حیات کے ٹھمکوں اور زارا عباس کے بلاخیز حسن و ادا کی وجہ سے دس میں سے ایک نمبر ورنہ میرٹ پر زیرو بنتا ہے۔
سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔