چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال آج (پیر) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوریٹو ریویو ریفرنس کی سماعت کریں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال آج وفاقی حکومت کی ’کیوریٹو ریویو پٹیشن‘ کو واپس لینے کی درخواست پر سماعت کریں گے جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کی تھی۔ کیوریٹو اپیل صدر ڈاکٹر عارف علوی، سیکریٹری قانون کے توسط سے سابق وفاقی حکومت، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر وغیرہ کے جانب سے دائر کی گئی تھی۔
30 مارچ کو وفاقی حکومت نے کیوریٹو ریویو واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست دائر کی تھی۔
23 مئی 2019 کو پی ٹی آئی کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے جسٹس عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف اپنے خاندان کے غیر ملکی اثاثے ظاہر نہ کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے رجوع کیا تھا۔
تاہم، جون 2020 میں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے 6-4 کی اکثریت کے ساتھ جسٹس عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس اور اس ریفرنس کی بنیاد پر شروع ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ بینچ کے اکثریتی اراکین نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں کی چھان بین کے لیے ایف بی آر کو حکم دے دیا۔
اس فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کر دی اور سپریم کورٹ نے جائیداد کی چھان بین کا اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے ایف بی آر کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔
اپنے یوٹیوب چینل پر اپنے تازہ ترین وی-لاگ میں صحافی عمر چیمہ اور اعزاز سید کا کہنا تھا کہ پہلے یہ تاثر تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جھگڑا چل رہا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کا ایک طبقہ عمران خان کے حق میں تھا۔ تاہم، ایسا کوئی معاون طبقہ تاحال بے نقاب یا ثابت نہیں ہوا تاہم عمران خان کی حمایت کرنے والا عدلیہ کا ایک طبقہ منظر عام پر آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس بندیال اپنا ضبط کھو چکے ہیں اور وہ غصے کی حالت میں انصاف کو یقینی نہیں بنا سکتے۔ دو ہی صورتیں ہیں یا تو چیف جسٹس بندیال کیوریٹو ریویو ریفرنس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنچ تشکیل دیں گے یا اسے ایس جے سی کو بھیجیں گے۔
صحافیوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت 10 رکنی بینچ کر رہا تھا تاہم اب اس بنچ کے تین جج ریٹائر ہو چکے ہیں۔ وہ تین ریٹائرڈ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں تھے۔ لہذا، اب چیف جسٹس بندیال اپنی پسند کے جج صاحبان کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
دونوں صحافیوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ چیف جسٹس بندیال الیکشن میں تاخیر کیس میں حکومت کے مطالبات کے باوجود لارجر بنچ تشکیل نہیں دے رہے۔ لہٰذا، یہ قوی امکان ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ معاملہ ایس جے سی کو بھیجا جاتا ہے تو اس کی سماعت چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں بینچ کرے گا اور سیکریٹری سپریم کورٹ کے رجسٹرار ہوں گے جن کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تنازع چل رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس طارق مسعود، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ ہوں گے۔
صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس بندیال کو فائدہ ہوگا چاہے کیس کی سماعت فل کورٹ بنچ کرے یا ایس جے سی۔
انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ بار نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس جاری کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے ہے۔
صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ عدلیہ میں اس تقسیم کے ذمہ دار تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں۔ پی ٹی آئی چیف جسٹس بندیال کو ’ہیرو‘ سمجھتی ہے جب کہ حکومت ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو آنے والے دنوں میں مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) میں دو بڑے گروپ ہیں: عاصمہ جہانگیر گروپ اور حامد خان گروپ۔ عاصمہ جہانگیر کا گروپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حمایت کرتا ہے اور حامد خان کا گروپ پی ٹی آئی کی حمایت کرتا ہے تاہم حامد خان گروپ کی بہت سی مضبوط شخصیات جسٹس عیسیٰ کے ساتھ ہیں۔
صحافیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فیصلہ آیا تو حکومتی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔