پاکستان میں سیاسی جماعتیں عمومی طور پر محض انتخابی پارٹیاں ہیں۔ عوام میں سیاسی جماعت کی موجودگی انتخابات کے دوران ہی محسوس ہوتی ہے یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں نظر آتی ہے۔ پرانے دور میں پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت ضرور تھی جو عوام میں موجود رہتی تھی۔ جو آہستہ آہستہ اشرافیہ کی پارٹی بنتی گئی۔ تحریک انصاف بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی اٹھان کے پچھے کئی کہانیاں ہیں۔ عمران خان کی حکومت بھی کئی مفروضوں پرمبنی ہے۔
عام رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار دیا گیا ہے۔ عمران خان منتخب وزیراعظم نہیں ہیں۔ دوسری طرح یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو الیکشن میں کامیابی کے لئے دوسری جماعتوں سے لوگ برآمد کرنا پڑے ہیں۔ ناقدین عمران خان کی وفاقی کابینہ کو سابق آمر پرویز مشرف کی کابینہ کہتے ہیں۔ مطلب اقتدار میں بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف بہت کم نظر آتی ہے۔ مانگے کی سواریاں زیادہ ہیں۔
تحریک انصاف کے حوالے سے مندرجہ عمومی تاثر سے عوام میں بات راسخ ہو چکی ہے کہ جس دن عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا، تحریک انصاف تنکوں کی طرح بکھر جائے گی۔ یہ بات بڑی حد تک حقیقت برمبنی ہے۔
تحریک انصاف کا مستقبل اب چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ تنظیم بناتے ہوئے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ پارٹی کے کلیدی عہدوں پر کیسے لوگ لے کر آتے ہیں۔ کارکنان کو کتنی عزت دیتے ہیں۔ سیاسی میرٹ اور سوٹ ازم، پرو آرگنائزیشن اور سیاسی اپروچ کو مد نظر رکھتے ہیں یا پہلے کی طرح خوشامد پسندی اور مالی حیثیت دیکھ کر عہدوں کی بندر بانٹ کرتے ہیں۔
سیف اللہ نیازی پہلے کئی معاملات پر نالاں تھے۔ ایک وقفے کے بعد دوبارہ آئے ہیں۔ امید ہے کہ سیف اللہ نیازی پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالے سے کارکنوں کو اہمیت دیں گے اور میرٹ پر تنظیمی کام کو آگے بڑھائیں گے۔ اگر صرف اسلام آباد کی بات کی جائے تو تحریک انصاف میں فرخ ڈال، نصیب اللہ چشتی اور طاہر راجپوت جیسے کئی کارکن ہیں جو حقیقی سیاسی کارکن کی تعریف پر مکمل پورا اترتے ہیں۔ عجیب دل جلے ہیں جنہوں نے انتخابات کے دوران اپنے کاروبار کی پروا نہیں کی۔ اپنی گاڑیاں وقف کیے رکھیں۔ اپنی جیب سے لٹاتے رہے۔
طاہر راجپوت اور نصیب اللہ چشتی کو پارٹی کے لئے دان رات ایک کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل ایسے ہی کارکن ہیں۔ جس سیاسی جماعت کے پاس ایسے سیاسی کارکن ہوں اور جماعت انہیں نظر انداز کر دے تو بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تحریک انصاف میں ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ کارکنان اور لیڈروں میں حقیقی اور نظریاتی کی تفریق کرنا پڑتی ہے۔ ایک وہ کارکن ہیں جو تحریک انصاف کے بنیادی ممبر ہیں اور پارٹی کے لئے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ دوسرے ابھار کی صورت میں ہوا کے دوش پر تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں۔
لیڈروں میں تو واضح لکیر ہے مگر کارکنوں میں تخصیص کارکنان ہی کر سکتے ہیں۔ کون چڑھتے سورج کا پجاری ہے اور کون انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ارسلان ہے، جس نے اس وقت تحریک انصاف کی صفیں نوجوانوں سے بھر دیں جب تحریک انصاف کو مذاق میں زیر بحث لایا جاتا تھا۔ آج پارٹی میں اس کی حیثیت کیا ہے۔ معلوم نہیں۔
اویس خالد، راجہ ذوالفقار بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ معلوم نہیں اب کہاں ہیں۔ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ نئی تنظیمی کمیٹی اور کور کمیٹی تمام پرانے کارکنوں سے رابطہ کرے۔ انہیں تنظیم میں لایا جائے اور تنظیمی تحریکی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔
عمران خان نے معذور افراد کے ونگ کا بھی اعلان کیا تھا۔ معذور افراد کے ونگ کو بھی لازمی فعال کیا جائے۔ جنرل سیکرٹری ارشد داد اور سیف اللہ نیازی تنظیمی حوالے سے بہترین انتخاب ہیں۔ اب ان پر ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کا مستقبل کیسا تعمیر کرتے ہیں۔