Get Alerts

امام خمینی اور ان کا اسلامی انقلاب جو آج بکھر رہا ہے

ایران ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، اسے نئی پہچان دینے کا سہرا جس رہنما کے سر جاتا ہے ان کا نام سید روح اللہ موسوی ہے جو 24 ستمبر 1902 کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ اسی شہر کی نسبت سے وہ خمینی مشہور ہوئے اور آگے چل کر ایران کے سب سے بڑے سیاسی و مذہبی رہنما امام خمینی کہلائے۔

امام خمینی اور ان کا اسلامی انقلاب جو آج بکھر رہا ہے

کرہ ارض پر ایران کی سرزمین صدیوں سے شان و شوکت کا استعارہ بن کر موجود رہی ہے۔ یہاں کا ماحول ہمیشہ بادشاہت کے نظام کے لیے سازگار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھویں صدی قبل مسیح سے لے کر بیسویں صدی تک یہاں کسی نہ کسی صورت میں بادشاہت قائم رہی ہے۔ صدیوں پر پھیلی اس تاریخ میں بادشاہوں نے ہمیشہ اس دھرتی کو علم و دانش کا مرکز بنا کے رکھا۔ اس سرزمین سے بے شمار ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے کسی نہ کسی انداز میں دنیا کو متاثر کیا۔ اسلام کی آمد سے بھی قبل یہ خطہ اپنی ثقافت و معاشرت میں بہت ترقی یافتہ تھا۔ زرتشتی مذہب جس میں آگ کو وجہ تخلیق کائنات سمجھتے ہوئے مقدس سمجھا جاتا ہے، ایران ہی کی سرزمین سے پھوٹا تھا۔ آج کے دور میں ایران کی پہچان ایک سخت گیر اسلامی ملک کی ہے جہاں اسلامی قانون نافذ ہے اور عوام کی اکثریت اسلامی شعار پر کاربند رہتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار رہی ہے۔

ایران ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، اسے نئی پہچان دینے کا سہرا جس رہنما کے سر جاتا ہے ان کا نام سید روح اللہ موسوی ہے جو 24 ستمبر 1902 کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔ اسی شہر کی نسبت سے وہ خمینی مشہور ہوئے اور آگے چل کر ایران کے سب سے بڑے سیاسی و مذہبی رہنما امام خمینی کہلائے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ ان کے باپ، دادا، پردادا مذہبی مُلا تھے۔ بہت چھوٹی عمر میں ان کے باپ کو قتل کر دیا گیا اور ان کی ماں نے اکیلے ہی ان کی پرورش کی۔ انہوں نے مختلف دینی مدرسوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور 1922 میں قُم چلے گئے جو ایران میں علم و دانش کا مرکز تھا۔

1930 کی دہائی میں وہ شیعہ عالم کے طور پر مشہور ہونے لگے۔ ایران میں نمایاں شیعہ سکالر کو آیت اللہ کہا جاتا ہے۔ 1950 کے عشرے میں وہ آیت اللہ کے درجے پر پہنچے۔ 1953 میں رضا شاہ پہلوی کے حامی جرنیلوں نے قوم پرست وزیر اعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ کر تودہ پارٹی کے ہزاروں کارکنان کو تہ تیغ کر دیا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس نے محمد رضا شاہ پہلوی کا ساتھ دیا۔ ایرانی علما نے درپردہ شاہ ایران کے خلاف مہم جاری رکھی اور چند سال بعد آیت اللہ خمینی ایرانی سیاست کے افق پر توانا آواز بن کر جلوہ گر ہوئے۔

جلاوطنی

1960 کی دہائی میں رضا شاہ پہلوی ملک میں White Revolution لے کر آئے اور ملک کو جدیدیت کی طرف مائل کرنے کے لیے انہوں نے چند اصلاحات متعارف کروائیں۔ اس نے خواتین کو پہلے سے زیادہ آزادی دی، مذہبی تعلیم کو کم کر دیا اور لینڈ ریفارمز متعارف کروائیں۔ ان اصلاحات نے مذہبی لوگوں اور جاگیردار طبقے کو شاہ کا مخالف بنا دیا۔

اکتوبر 1963 میں ایران نے امریکی فوجی مشن کے افراد کو وہ حقوق دے دیے جو ویانا کنونشن کے تحت صرف سفارت کاروں کو ملتے تھے۔ اس معاملے کو امام خمینی نے ملک گیر ایشو بنا دیا۔ اسی تناظر میں انہوں نے مدرسہ فیضیہ قُم میں ایک زوردار تقریر کی جو بہت پراثر ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا:

"میرا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ میں اس قدر دل گرفتہ ہوں کہ موت کے دن گن رہا ہوں۔ اس شخص (محمد رضا شاہ پہلوی) نے ہمیں بیچ ڈالا۔ ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا ڈالی۔ اہل ایران کا درجہ امریکی کتے سے بھی کم جر دیا گیا ہے۔ اگر شاہ ایران کی گاڑی کسی امریکی کتے سے ٹکرا جائے تو شاہ کو تفتیش کا سامنا کرنا ہو گا لیکن کوئی امریکی خانساماں شاہ ایران یا اعلیٰ ترین عہدے داروں کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے۔ آخر کیوں۔۔۔؟ کیونکہ ان کو امریکی قرضے کی ضرورت ہے۔ اے نجف، قُم، مشہد، تہران اور شیراز کے لوگو! میں تمہیں خبردار کرتا ہوں یہ غلامی مت قبول کرو۔ کیا تم چپ رہو گے اور کچھ نہ کہو گے؟ کیا ہمارا سودا کر دیا جائے اور ہم زبان نہ کھولیں؟"

اس تقریر نے ایران میں ہلچل مچا دی۔ اس کے 7 دن بعد امام خمینی کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک سال تک ایران میں قید رکھنے کے بعد انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔ جلاوطن ہو کر امام خمینی ترکی پہنچے اور ایک سال ترکی میں گزارا۔ وہاں سے 4 اکتوبر 1965 کو عراق کے شہر نجف اشرف چلے گئے۔ جس طرح قُم ایران میں شیعہ دانش کا مرکز تھا، نجف اشرف کو عراق میں یہی مقام حاصل تھا۔ عراق میں قیام کے دوران ہی انہوں نے اپنا ولایت فقیہہ کا نظریہ پیش کیا اور یہیں انہوں نے اسلامی انقلاب کی صورت گری کی۔ عراق میں اس وقت صدام حسین کی حکومت تھی اور صدام حکومت کے اعتراضات کے نتیجے میں امام خمینی 6 اکتوبر 1978 کو فرانس چلے گئے۔

امام خمینی جلاوطنی کے زمانے میں ایرانی بادشاہت کے زبردست مخالف رہے اور اس دوران ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ فرانس کے ایک پرسکون اور چھوٹے سے گاؤں نوفل لا شیتو میں قیام کے دوران انہوں نے ایرانی حکومت کے خلاف مہم جاری رکھی۔ ان کے آڈیو اور ویڈیو پیغامات پر مبنی بڑی تعداد میں کیسٹیں یہیں تیار ہوئیں اور یہیں سے ایران بھیجی جاتی رہیں جنہیں سن کر لوگ دن بدن شاہ ایران کی پالیسیوں سے بے زار ہوتے چلے گئے۔

ایران کا انقلاب

رضا شاہ پہلوی کی پالیسیوں کے باعث ایران کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی اور بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہو گئے۔ جنوری 1978 میں ایران میں دینی مدرسوں کے طلبہ آیت اللہ خمینی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔ بہت سارے نوجوان اور بے روزگار افراد بھی جلد ہی اس احتجاج میں شامل ہو گئے۔ ایرانی بادشاہت کو مغرب نواز قرار دیتے ہوئے فوری طور پر اس کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ توڑ پھوڑ شروع ہو گئی اور جگہ جگہ جلاؤ گھیراؤ ہونے لگا۔ کئی مظاہرین ہلاک ہوئے اور ان ہلاکتوں کے بعد مظاہرے مزید پرتشدد ہو گئے۔ 17 جنوری 1979 کو شاہ ایران خاموشی سے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر چلے گئے اور یکم فروری 1979 کو روح اللہ خمینی 15 سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آ گئے۔ تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے سے لے کر بہشتِ زہرا کے قبرستان تک لاکھوں کی تعداد میں ایرانیوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔

یکم اپریل 1979 کو ملک میں ایک ریفرنڈم کروایا گیا جس میں مجموعی آبادی میں سے 71.6 فیصد لوگوں نے حصہ لیا اور ان میں سے 98 فیصد نے اسلامی ریاست کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم کے بعد آیت اللہ خمینی نے ایران میں اسلامک ری پبلک کی بنیاد رکھی اور انہیں تاحیات ایران کا سب سے بڑا سیاسی اور مذہبی رہنما یعنی 'رہبرِ اعلیٰ' مقرر کیا گیا۔ انہوں نے شاہی نظام ختم کر دیا اور ملک میں اسلامی قانون نافذ کر دیا۔ دسمبر 1979 میں ملک کا آئین منظور ہوا اور اس کے مطابق ایران باقاعدہ طور پر اسلامی جمہوریہ قرار پایا۔

امام خمینی کیسا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے؟

امیر طاہری نے امام خمینی کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے انقلاب کے ابتدائی دنوں میں کی جانے والی امام خمینی کی تقریروں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ امیر طاہری کے مطابق امام خمینی قوم پرستی، جمہوریت، آزادی اور پلورل ازم کے دشمن تھے۔ انہوں نے بارہا ایک ایسی حکومت کا مطالبہ کیا جس میں شیعہ علما اور ملاؤں کے پاس حکومتی سربراہی ہو۔ وہ بادشاہت کے مخالف بھی نہیں تھے، لیکن بادشاہت کی مخالفت کا ان کا مقصد ملائیت کی سربراہی کا قیام اور آئینی (پہلوی دور کی) بادشاہت کا رد تھا۔ انقلاب کے بعد ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ خمینی نے کہا:

"ہمارا دشمن صرف محمد رضا پہلوی ہی نہیں تھا، بلکہ جو بھی اسلام کے راستے پر نہیں ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اس کا جو بھی نام ہو۔ جو بھی 'جمہوریت' چاہتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے، کیونکہ وہ اسلام کا دشمن ہے۔ ہم یہ گھناؤنی بادشاہت نہیں چاہتے تھے۔ ہم آسمانی بادشاہت چاہتے ہیں جس میں خدائی احکامات پورے ہوں۔"

انہی ابتدائی دنوں میں جمہوری کارکنوں سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا:

"جو ایک جمہوری ریاست کی بات کرے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ کیونکہ وہ اسلام نہیں چاہتا۔ ہم اسلام چاہتے ہیں، ہم جمہوریت نہیں چاہتے۔ ہمارے نوجوانوں نے لہو دیا کیونکہ وہ اسلام چاہتے تھے، جمہوریت نہیں۔ ہم اسلام کے بغیر آزادی نہیں چاہتے۔ ہم اسلام کے بغیر آزادی نہیں مانگتے۔ اسلام کے بغیر آزادی کی اہمیت کیا ہے؟ اسلام کے بغیر ہزار آزادیاں ہوں تو ان کا کیا فائدہ؟ دوسرے ممالک میں ایسی آزادی ہے، ہم اسے نہیں چاہتے۔ ہماری ساری پریشانی ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن وہ آپ کے لیے ایک ایسا مغربی ملک بنانا چاہتے ہیں جس میں آپ ہر پابندی سے آزاد ہوں۔ جہاں کوئی معبود، کوئی نبی، وقت کا کوئی امام، کوئی قرآن، خدا کا کوئی اصول نہ ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ سوئٹزرلینڈ کی طرح بنیں، لیکن امت یہ نہیں چاہتی۔ وہ قرآن چاہتی ہے۔"

امام خمینی کے ذہن میں تعلیمی نظام کا جو نقشہ موجود تھا اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یورپ بھیجے جانے والے ایرانی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی نے کہا:

"انہوں (سابقہ حکومت) نے مغرب اور اس کی ترقی کے بارے میں اتنا پروپیگنڈا کیا کہ ہمارے نوجوانوں کو مغربی بنا دیا اور اسلامی ذہنوں کی جگہ مغربی ذہن پیدا کر دیے۔ ہمارے بیش تر بچے اور نوجوان یقین رکھتے ہیں کہ سب کچھ مغربی ہونا چاہئیے، لیکن مغرب نے صرف مادی ترقی کی ہے۔ دوسری جانب دیکھیں تو انہوں نے دنیا کو لڑاکا اور وحشی بنا دیا ہے۔ مغربی تعلیم نے انسان کو اپنی انسانیت سے محروم کر دیا ہے۔ مغربی انسان اب انسان نہیں رہا۔ اس کے بجائے وہ شکاری پیدا کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈے اس شکاری کے پنجے ہیں۔ مغرب جو آزادی چاہتا ہے وہ غلامی کی آزادی ہے۔ یہ اسلامی روایت کے خلاف ہے۔ ہم مغربی تعلیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسے اسلامی تعلیم سے بدلنا چاہتے ہیں۔"

امیر طاہری ان تقریروں پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ امام کے اردگرد موجود دانش ور ان سے ان نظریات کے حوالے سے سوال پوچھنے کی جرات نہیں کرتے تھے حالانکہ امام خمینی جس طرح کے نظریات کا پرچار کر رہے تھے ان میں کئی سقم موجود تھے۔ ان میں سے بعض دانش وروں نے بعد میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ امام کے فریب میں آ گئے تھے اور انہیں اندازہ نہیں تھا کہ امام ملک میں کس طرح کا نظام رائج کرنے جا رہے ہیں۔

امیر طاہری دانش وروں کے اس جواز کو بے وزن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام خمینی نے انقلاب کے ابتدائی دنوں ہی سے بہت کھلے انداز میں اپنے نظریات کا اظہار شروع کر دیا تھا اور کبھی کچھ نہیں چھپایا تھا۔ انہی میں سے بعض دانش وروں کا کہنا ہے کہ خمینی استعمار اور آمریت کے خلاف جدوجہد کے رہنما کے طور پر نمودار ہوئے لیکن حقیقت میں وہ پچھلے نظام سے بھی بدتر نظام کے بانی بن گئے۔

امام خمینی کی وراثت

دس سال تک ایران کے رہبراعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے کے بعد 3 جون 1989 کو امام خمینی کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔ انہیں تہران کے قریب بہشت زہرہ قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان دس سالوں میں ایران میں بڑی بڑی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ سیاست، معیشت، سفارت، معاشرت، ثقافت، حقوق، آرٹ، لٹریچر، تعلیم سمیت کوئی بھی شعبہ زندگی انقلاب کے اثرات قبول کرنے سے محفوظ نہ رہ سکا تھا۔

امریکی سفارتی عملہ یرغمال

امام خمینی رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کے اس لیے بھی مخالف تھے کہ ان کے دور میں عوام کو شخصی آزادیاں حاصل تھیں۔ امام کے نزدیک یہ آزادی نہیں بلکہ بے راہ روی تھی اور اس کے پیچھے مغربی کلچر اور امریکہ کا ہاتھ تھا اس لیے وہ امریکہ اور مغرب کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ اسی نفرت کے زیراثر امام خمینی کے حمایتی شدت پسند نوجوانوں نے 4 نومبر 1979 کو ایران میں موجود امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دیا اور امریکی سفارتی عملے کے درجنوں اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ ایرانی نوجوان حملہ آوروں نے امام خمینی کی ہدایت پر ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک ان اہلکاروں کو یرغمال بنائے رکھا۔ اس واقعے نے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں ایسی دراڑ ڈالی جو آج تک موجود ہے۔

خارجہ پالیسی میں تبدیلی اور پراکسی جنگیں

خارجہ پالیسی تبدیل کر دی گئی۔ دنیا کی دونوں بڑی طاقتوں یعنی امریکہ اور روس کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔ امریکی مخالفت کے باعث ایران کو معاشی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ کی جانب سے ان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ملکی معیشت دھیرے دھیرے دگرگوں ہوتی چلی گئی۔ آج بھی یہ صورت حال ہے کہ ایرانی کرنسی دن بہ دن کمزور ہو رہی ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ روزگار کے سلسلے میں بڑی تعداد میں نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

امریکی مخالفت کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے دیرینہ دشمن بن گئے۔ اس کے بعد سے اب تک مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں میں دونوں ممالک پراکسی جنگوں میں مدمقابل ہیں۔ ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ شام میں برسرپیکار ہے اور بیرونی طاقتوں کی آپسی چپقلش میں شام کے کئی شہر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

اس مخالفت کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ دنیا میں جہاں جہاں شیعہ اور سنی یا شیعہ اور وہابی مسلمان اکٹھے رہ رہے تھے، اس انقلاب کے بعد دونوں مذہبی گروہوں کے مابین ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا ہوتی چلی گئی۔ امریکہ نے خلیجی ملکوں اور سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیے اور یہی اچھے تعلقات اب امریکہ نے اسرائیل کو بھی تحفے میں دے دیے ہیں۔ اب سنی اور وہابی اکثریت والے ممالک ایران کے سخت مخالف ہیں۔ یہی مخالفت ہمیں یمن میں 2015 سے لڑی جانے والی لڑائی میں بھی نظر آتی ہے جہاں ایک جانب ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں اور دوسری جانب سعودی عرب اور چند خلیجی ملکوں کا حمایت یافتہ گروہ حکمرانی اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔

ایران عراق جنگ

ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو ایرانی علما کے دلوں میں یہ خواہش بھی انگڑائیاں لینے لگی کہ شیعہ اسلام کا یہ ماڈل دوسرے ملکوں کو بھی ایکسپورٹ کیا جانا چاہئیے۔ ہمسایہ ملک عراق بھی شیعہ اکثریتی ملک تھا اور وہاں صدام حسین کی حکومت تھی۔ ایران کی خواہش تھی کہ سب سے پہلے عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد اس بنیاد پر ایران اور عراق کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ چنانچہ ستمبر 1980 کو شط العرب کے آبی راستے کی ملکیت پر دونوں ہمسایہ ملکوں میں تنازعہ پیدا ہوا اور عراق نے ایران پر حملہ کر دیا۔ دو اسلامی ملکوں کے مابین یہ جنگ 8 سال تک جاری رہی اور اس میں 5 سے 10 لاکھ تک لوگ ہلاک ہو گئے۔ انا اور ہٹ دھرمی میں ایران کی حکومت جنگ بندی کا اعلان کرنے سے کتراتی رہی اور بے گناہ لوگ مرتے رہے۔

اگرچہ اس جنگ کے ذریعے دونوں ملک ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں تو ناکام رہے مگر انہیں جانی اور معاشی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ایران میں رہنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اسلامی حکومت کی دانش اور صلاحیت پر سوال اٹھانے لگی۔

سماجی اور سیاسی نظام میں تبدیلیاں

اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں مذہبی جنونیت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ ہر وہ علم جو تنقیدی سوچ ابھارنے میں مدد دیتا ہو ممنوع قرار پایا۔ ایسے دانش ور جو اسلامی انقلاب سے مختلف سوچ رکھتے تھے انہیں مختلف طریقوں سے چپ کروایا گیا۔ نفرت کا یہ ماحول صرف ملک کے اندر تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اسے دوسرے ملکوں کو بھی ایکسپورٹ کیا گیا۔ چنانچہ 1988 میں جب بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مصنف سلمان رشدی کی کتاب The Satanic Verses چھپی تو اس نے مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پیدا کیا۔ جگہ جگہ ان کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے زور پکڑتے چلے گئے۔

جب یہ کتاب چھپی تو سب سے پہلے بھارت میں اس پر پابندی لگائی گئی۔ ایران چھ ماہ تک اس معاملے پر خاموش رہا۔ کہا جاتا ہے ایک ایسے وقت میں جب امام خمینی کے پرانے رفیق ان سے دوری اختیار کر رہے تھے اور انقلاب کے اثرات پر سوال اٹھا رہے تھے، امام خمینی نے حکومت کی مقبولیت بڑھانے کے لیے سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا۔ فروری 1989 میں جاری ہونے والے اس فتوے میں انہوں نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ دین اسلام کی توہین کرنے والے مصنف سلمان رشدی کو قتل کر دیں۔ قاتل کے لئے انہوں نے بھاری انعام کا اعلان بھی کیا۔

اس فتوے کے بعد مصنف سلمان رشدی کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو گئے اور وہ تب سے آج تک روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل نیویارک میں ان پر ایک تقریب کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ جان سے تو بچ گئے مگر ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ حملہ آور نے اگرچہ اس فتوے کا حوالہ تو نہیں دیا تاہم اس نے اتنا ضرور بیان دیا کہ میں آیت اللہ خمینی کا احترام کرتا ہوں، وہ عظیم شخص ہیں۔ بعض ایرانی اخباروں نے اس حملہ آور کی تعریف بھی کی تھی۔

سخت گیر اسلامی قانون کے نفاذ نے خواتین کے حقوق محدود کر دیے اور معاشرہ قدیم مذہبی روایات کے بل بوتے پر قدامت پسندی کے راستے پر معکوس سمت میں کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ سماجی آزادیوں پر قدغن لگا دی گئی۔ ایک کھلا کھلا، ترقی کرتا، پھلتا پھولتا اور سانس لیتا سماج پنجرے میں قید کر دیا گیا۔ خواتین کے لئے برقعہ پہننا لازمی قرار دیا گیا۔ مغربی موسیقی، مغربی سنیما، شراب اور جوے پر پابندی لگا دی گئی۔ سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات پر تنقید ناقابل قبول قرار دے دی گئی۔

تنقیدی سوچ رکھنے والے کئی فلم بنانے والوں پر پابندیاں لگیں۔ عباس کیارستمی کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا اور انہوں نے اپنی زندگی کی آخری دو فلمیں فرانس میں رہ کر بنائیں۔ اسی طرح جعفر پناہی کے فلمیں بنانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

سیاسی نظام میں کلیدی حیثیت رہبر اعلیٰ کو حاصل ہو گئی اور اس کے بعد سپریم لیڈر کی مرضی کے لوگوں نے ملک کا سیاسی نظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ مخالفین کی آوازوں کو دبانے کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا۔ جیلیں بھری گئیں۔ پھانسیاں دینے کے ریکارڈ بنائے گئے۔ کئی مخالفین کو بغیر مقدمہ چلائے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

مصیبت یہ ہے کہ اس طرح کے انقلابوں کے بعد معاشرے کی جس دردناک انداز میں کایا کلپ کر دی جاتی ہے اس کے اثرات آسانی سے ختم نہیں کیے جا سکتے۔ ایک دفعہ معاشرہ نئے رنگ میں رنگ جائے تو واپس جانے میں اسے کئی عشرے لگ جاتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اگرچہ 11 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد ہلاک ہو گئے تھے مگر ان گیارہ سالوں میں انہوں نے معاشرے کو جس طرح ادھیڑا اس کے اثرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ایران کی صورت حال بھی یہی رہی۔ اگرچہ اندر سے کئی لوگ اس نظام میں خرابیوں کی طرف ڈھکے چھپے انداز میں اشارے کرتے بھی ہیں مگر چونکہ آزادی اظہار پر پابندیاں ہیں اس لیے یہ نظام بدستور چلتا چلا جا رہا ہے۔ امام خمینی اگرچہ محض 10 ہی سال تک ایران کے رہبر اعلیٰ رہنے کے بعد فوت ہو گئے مگر ان دس سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا چنانچہ ان کے بعد ایران کے سپریم لیڈر منتخب ہونے والے خامنہ ای نے بھی اسی سخت گیر شیعہ اسلامی نظام کو برقرار رکھا اور ملک پیچھے ہی پیچھے جاتا چلا گیا۔

احتجاج

ماضی میں کئی مرتبہ ایران کے عوام اسلامی نظام کے خلاف سڑکوں پر آ چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک جواں سال کُرد لڑکی مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں تشدد کے باعث ہونے والی ہلاکت کے نتیجے میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے۔ مہسا امینی کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا تھا کہ سکارف ٹھیک نہ لینے کی وجہ سے ان کے سر کے بال ںظر آ رہے تھے۔ اس دوران بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے، جلاؤ گھیراؤ ہوا اور خواتین سکارف اور عبائے اتار کر احتجاج میں شریک ہوئیں۔ یہ ایران کے عوام کا امام خمینی کی لائی ہوئی سماجی تبدیلی کے خلاف کھلا احتجاج تھا جس پر اگرچہ قابو تو پا لیا گیا مگر راکھ میں دبی اس چنگاری کو بجھانا ممکن نہیں نظر آتا۔

حالیہ عرصے میں ایک اور سخت گیر اسلامی ملک سعودی عرب نے اپنی پہچان بدلنے کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ماضی کے سخت حریف سعودی عرب اور ایران اب قریب آ رہے ہیں۔ سعودی عرب کی طرح ایران بھی اپنے اسلامی نظریات پہ یوٹرن لے گا یا اپنی پالیسیوں پہ یونہی کاربند رہے گا، دنیا کی نگاہیں اب اسی پیش رفت پر لگی ہیں۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں۔ وہ عالمی ادب، بین الاقوامی سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔