Get Alerts

پاکستان کے علما سائنس پر مولانا مودودی کے پیروکار ہیں یا امام خمینی کے؟

پاکستان کے علما سائنس پر مولانا مودودی کے پیروکار ہیں یا امام خمینی کے؟
ہمارے یہاں اکثر مولانا مودودی اور آیت الله خمینی کے نظریات میں مماثلت زیرِبحث رہی ہے۔ اگرچہ سیاسی افکار میں آیت الله خمینی کو مولانا مودودی یا سید قطب کا مقلد کہا جا سکتا ہے لیکن ایک ایسا موضوع ہے جس پر دونوں حضرات میں مکمل اختلاف پایا جاتا ہے، اور وہ ہے سائنس کے بارے میں ان حضرات کے عقائد و نظریات، اور اس اختلاف کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ آیت الله خمینی کو حقیقت میں ایک جدید ریاست چلانے کا تجربہ ہوا جس سے مولانا مودودی محروم رہے۔ اس کے علاوہ آیت الله خمینی کی شخصیت کا ایک اہم حصہ طالب علمی کے دوران نصیر الدین طوسی اور دوسرے قدیم مسلمان سائنس دانوں کی کتابوں کو پڑھنا بھی ہے کہ جس نے ان کے لئے جدید سائنس کو قبول کرنا آسان بنا دیا۔

مولانا مودودی سائنس کو مغربی وجدانیات قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں

مولانا مودودی نے سائنس کے بارے میں اپنے عقائد اپنی کتاب ”تعلیمات“ میں پیش کیے ہیں، جس سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں۔ سائنسی طریقہ کار کے بارے میں فرماتے ہیں:

”جہاں تک حقائقِ علمیہ کا تعلق ہے، اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں، مغربیت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہلِ مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصورات، بنیادی مفروضات، نکتہ ہائے آغاز اور زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں بلکہ محض ان کے وجدانات ہیں۔ وہ اپنے حقائقِ علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اور اس سانچے کی مناسبت سے انہیں مرتب کر کے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔“[1]

یہاں مولانا اس بات کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ حقائقِ علمیہ کہیں باہر سے بنے بنائے سائنس دان کے ذہن میں الہام نہیں ہوتے، بلکہ سائنس دان کا ذہنی سانچہ انہیں جنم دیتا ہے۔ سائنسی حقائق الہامی نہیں، تخلیقی ہوتے ہیں جو سائنسی سانچے میں ڈھلے ہوئے مادی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن مغرب کا ہو یا مشرق کا، ان حقائق کو درک اور کشف کر سکتا ہے۔ سائنسی طریقہ کار کو ”مغربیت“ کہنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ ریاضی یا تجربے کا فن کسی سرزمین سے بندھا ہوا نہیں ہوتا۔

مولانا مودودی کا جذباتی مگر مغالطوں سے بھرپور خطاب

5 جنوری 1941ء کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں مولانا مودودی نے ”نیا نظامِ تعلیم“ کے عنوان سے ایک پر جوش خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ تخیل کو لذت و سرور اور جذبات کو حرارت دینے والا تو ہے مگر مغالطوں سے بھرا ہوا ہے۔ فرماتے ہیں:

”دین کا اقتضا یہ ہے کہ تمام علوم کو دینی علوم بنا دیا جائے۔ ورنہ اگر کچھ علوم دنیوی ہوں اور وہ خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے خالی رہیں اور کچھ علوم دینی ہوں اور وہ دنیوی علوم سے الگ پڑھائے جائیں تو ایک بچہ شروع ہی سے اس ذہنیت کے ساتھ پرورش پائے گا کہ دنیا کسی اور چیز کا نام ہے اور دین کسی اور چیز کا۔ اس کے لئے یہ دونوں دو مختلف عنصر ہوں گے اور ان کے درمیان توافق پیدا کر کے ایک ایسی ہموار زندگی بنانا اس کے لئے مشکل ہو گا جو ادخلو فی السلم کافۃ کی مصداق ہو سکے۔

مثال کے طور پر اگر آپ تاریخ، جغرافیہ، طبیعات (Physics)، کیمیا (Chemistry)، حیاتیات (Biology)، حیوانیات (Zoology)، ارضیات (Geology)، ریاضی (Mathematics)، ہئیت (Astronomy)، معاشیات (Economics)، سیاسیات (Political Science) اور دوسرے تمام علوم ایک شخص کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ اول سے آخر تک کسی جگہ خدا کا نام نہیں آتا، نہ آفاق و انفس کے آثار پر اس حیثیت سے نظر ڈالی جاتی ہے کہ یہ آیاتِ الٰہی ہیں، نہ قوانین طبیعی کا ذکر اس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ یہ ایک حکیم کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، نہ واقعات کی توجیہ اس حیثیت سے کی جاتی ہے کہ ان میں کسی قادر و توانا کا ارادہ کام کر رہا ہے۔ نہ عملی علوم میں اس مقصد کا کہیں نشان پایا جاتا ہے کہ ان سے خدا کی رضا کے مطابق کام لینا ہے۔ نہ معاملاتِ زندگی کی بحث میں اس ضابطہ کا کہیں بیان آتا ہے جو انہیں چلانے کے لئے خدا نے بنایا ہے۔ نہ سرگزشتِ حیات میں اس کے الٰہی مبدا و غایت کی بحث کسی جگہ آتی ہے۔ تو علوم کے اس پورے مجموعہ سے اس کے ذہن میں دنیا اور اس کی زندگی کا جو تصور پیدا ہو گا وہ خدا کے تصور سے بالکل خالی ہو گا، ہر چیز سے اس کا تعارف خدا کے بغیر ہو گا اور ہر معاملہ میں وہ اپنا راستہ خدا اور اس کی رضا سے الگ بنائے گا۔“[2]

یہاں ظاہری خطیبانہ لفاظی کے شیش محل سے جدید علوم کی روح سے ناواقفیت چھن چھن کر باہر آ رہی ہے۔ دینی علوم اور دنیوی علوم کی تقسیم، علومِ نقلیہ اور علومِ عقلیہ کے عنوانات سے مسلمانوں کے سنہرے دور میں بھی موجود تھی، اور یہ تخصص کے اس دور میں ختم نہیں کی جا سکتی۔ جدید علوم میں خدا کے ذکر کے نہ ہونے کا شکوہ یوں کر رہے ہیں گویا خدا کا ذکر ایک متغیر مقدار(x) ہے جسے جدید علم کی مساواتوں میں ڈالے بغیر علم کافر ہو جاتا ہے۔ سائنسی علوم میں وہی مفہوم علم کی قلمرو میں شامل ہو سکتا ہے جو عدد کی شکل میں ماپا جا سکے۔ اسلام میں تو خدا کی ذات و صفات کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔[3] سائنس میں اس مفہوم سے کوئی بصیرت حاصل نہیں کی جا سکتی جس کے ساتھ عدد منسلک نہ کیا جا سکے۔

سائنس کے علمی حصے کا صریحاً انکار

آگے چل کر مولانا سائنس کے علمی حصے کا سرے سے انکار کر کے اس کے صرف معلوماتی حصے کو حلال قرار دیتے ہیں:

”موجودہ سائنس کی گمراہی میں ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حقائقِ واقعیہ کے مشاہدے کی حد تک تو ٹھیک رہتا ہے، مگر جب حقائق کو جوڑ کر ان سے نظریات بناتا ہے تو کائنات فطرت کے مبدا و غایت سے ناواقف ہونے کے باعث ٹھوکریں کھاتا جاتا ہے۔“[4]

یہاں بھی مولانا یہ بھول گئے کہ سائنس میں مفروضات قائم کرنے کے بعد ان کی بنیاد پر پیش گوئی کرنا اور اس پیش گوئی کو تجربے سے گزارنا ضروری ہے، اور صرف اسی وقت ان کو نظریات یا تھیوری کا نام دیا جا سکتا ہے جب وہ تجربے کی کسوٹی پر پورا اتریں۔ تجربہ اسی صورت حسب توقع نتائج دے سکتا ہے جب وہ صحیح نظریات کی بنیاد پر تجویز کیا گیا ہو۔ تعجب کی بات نہیں کہ امام غزالی کی طرح مولانا کا مثالی ”اسلامی سائنس دان“ بھی کبھی پیدا نہ ہو سکا جو مبینہ ”غیر اسلامی سائنس دانوں“ کی کسی ایک گمراہی کی نشاندہی کر کے اسے تجربے کی بھٹی سے گزار کر عملی طور پر ثابت کر سکا ہو۔

مخلوط تعلیم اور مغربی کھیل تمام اخلاقی مسائل کی جڑ قرار دے دیے

یونیورسٹی کے ماحول کو مسلمان کرنے کے سلسلے میں مولانا کی کچھ اور تجاویز کو پڑھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں، فرماتے ہیں:

”آخر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف آپ خدا اور رسولؐ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کر کے جوان لڑکیوں اور جوان لڑکوں کو ایک ساتھ بٹھاتے ہیں اور دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ انہی لڑکوں اور لڑکیوں میں خدا کا خوف اور اخلاقی قوانین کا احترام پیدا ہو۔“[5]

آگے چل کر کہتے ہیں:

”اس (یونیورسٹی) کے حدود میں مغربی لباس کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے۔ اس میں طلبہ کے کھیل اور تفریحات کے لئے بھی مغربی کھیلوں کے بجائے گھوڑے کی سواری، تیراکی، نشانہ بازی، اسلحہ کا استعمال، موٹر سائیکل اور موٹر چلانے کی مشق اور ایسی ہی دوسری تفریحات رائج کی جانی چاہئیں۔ اس کے ساتھ انہیں کسی حد تک فوجی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔“[6]

اب اس تبلیغ کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ کا کلاشنکوف کلچر اچنبھے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔

آیت اللہ خمینی مودودی سے ان معاملات پر مکمل اختلاف رکھتے ہیں

آیت الله خمینی کے خیالات ان معاملات میں مولانا مودودی سے بالکل مختلف تھے۔ وہ کہتے ہیں:

”میرے لئے ضروری ہے کہ میں ایک نکتے کی وضاحت کروں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کی اصلاح سے ہمارا مقصد کیا ہے۔ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید سائنس کی دو قسمیں ہیں: اسلامی اور غیر اسلامی، مثلاً اسلامی انجینرنگ اور غیر اسلامی انجینرنگ یا اسلامی طبیعات اور غیر اسلامی طبیعات، چنانچہ انہوں نے اعتراض کیا کہ علم تو اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ تعلیمی اداروں کو اسلامی بنانے سے مراد صرف مذہب سے متعلقہ علوم پڑھانا ہے، جیسے فقہ، اصول اور تفسیر، دوسرے لفظوں میں ان کو قدیم دور کے مدرسے بنانا ہے۔ یا تو انہوں نے بات کو نہیں سمجھا یا جان بوجھ کر خود کو اس دھوکے میں ڈالا ہے۔“[7]

ایران کی یونیورسٹیوں میں جدید دنیوی علوم کے شعبوں میں مغربی مصنفین کی کتابیں جدید سائنسی طرز پر ہی پڑھائی جاتی ہیں۔ جہاں تک طلبہ و طالبات کی مخلوط تعلیم کا تعلق ہے تو وہ بھی ایران میں جاری و ساری رہی ہے اور اسے اسلام کے خلاف نہیں سمجھا گیا ہے۔ جب کہ مولانا مودودی تعلیمی اداروں میں فقط ہم جنسی اختلاط کو ہی جائز سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں جدید کھیلوں، جیسے فٹبال، والی بال، اسکواش، ہاکی وغیرہ کو بھی مغربی اور غیر اسلامی نہیں سمجھا گیا ہے۔ لڑکیوں کو بھی کھیلوں کے لئے جگہ فراہم کی گئی ہے۔ لڑکے لڑکیاں جینز پہنتے ہیں، مغربی آرائش کرتے ہیں۔ ایک اہم تہذیبی تبدیلی یہ ہے کہ تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت حاصل کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے محبت کی شادی کرنے والوں کے اخراجات ان کے والدین اٹھاتے ہیں۔ قانونی شادی کے علاوہ ازدواجِ سفید یا متعہ کی شکل میں اکٹھے رہنا عام تو نہیں مگر رائج ضرور ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایرانی معاشرے میں جنسی امتیاز کافی حد تک کم ہو چکا ہے، اگرچہ قانونی سطح پر جنسی بنیاد پر امتیازی سلوک کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔

دوسری طرف مولانا مودودی کو بلا شبہ عصرِحاضر کا غزالی کہا جا سکتا ہے۔ امام غزالی نے مسلمانوں کے ہاں مادی علم کی ترقی کے سنہرے دور پر متکلمین کی فوج تیار کر کے ایسا وار کیا کہ مادی علوم کو میسر افرادی قوت میں شدید کمی واقع ہو گئی۔ اگرچہ ان کی کتاب تہافۃ الفلاسفہ میں تکفیر کیے جانے کے باوجود عقلی علوم کا چراغ جلتا رہا لیکن مذہبی خطیبوں کی گھن گرج میں اس کی لو بہت مدھم پڑ گئی۔ مولانا مودودی نے بھی اپنی کتب اور پیروکاروں کی مدد سے پاکستان کے تعلیمی اداروں پر ایسا ہی وار کیا ہے۔ علامہ جواد نقوی صاحب کی تحریک بیداری جیسی پاکستان کی مذہبی تحریکیں، جو مسلکی اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے آیت الله خمینی کا نام اور تصویریں استعمال کرنے پر مجبور ہیں، ذہنی طور پر مولانا مودودی کی خطابت کو ترجیح دیتی ہیں۔




حوالہ جات

[1] مولانا مودودی، ”تعلیمات“، صفحہ 27، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور

[2] مولانا مودودی، ”تعلیمات“، صفحہ 59، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور

[3] نہج البلاغہ، خطبہ 150

[4] مولانا مودودی، ”تعلیمات“، صفحہ 65، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور

[5] مولانا مودودی، ”تعلیمات“، صفحہ 117، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور

[6] مولانا مودودی، ”تعلیمات“، صفحات 120-121 ، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور

[7] آیت الله خمینی کا یونیورسٹیوں کے وفد سے خطاب ، ”صحیفہ امام(انگریزی ترجمہ)“، جلد 12، صفحہ 217،بتاریخ 21 اپریل 1980، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔