آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مطہری کی زبانی حضرت عمرؓ کے فضائل، جو سنی اور شیعہ علما چھپاتے ہیں

آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مطہری کی زبانی حضرت عمرؓ کے فضائل، جو سنی اور شیعہ علما چھپاتے ہیں
کئی جید شیعہ علما اور سکالرز نے اپنی کتب اور تقاریر میں خلفائے راشدین کی مدح کی ہے، اور اگرچہ وہ خاتم الخلفا حضرت علیؑ کو افضل الخلفا اور خلافت کا صحیح حقدار مانتے ہیں، خلفائے راشدین کے طرزِ حکومت کو بطور کلی اسلامی سمجھتے ہیں اور ان کے معاملے کو ملوکیتِ طلقا سے جدا رکھتے ہیں۔ اسی طرح ابتدائی مسلمانوں میں مہاجرین و انصار کو صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل سمجھتے ہیں۔ آیت الله نائینی، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ خوئی جیسے بڑے شیعہ محققین یہی مؤقف رکھتے ہیں۔ لیکن ایسی معتدل باتیں نہ شیعہ خطیب سامنے لاتے ہیں، نہ سنی خطیب ان کا ذکر کرتے ہیں۔

برصغیر میں ایسی نمایاں شیعہ شخصیات میں سید امیر علی، آیت الله علی نقی نقوی، علامہ محمد باقر دہلوی، شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد، وغیرہ شامل ہیں۔ ایران کے انقلابی رہنما آیت الله خمینی نے اٹھائیس سال کی عمر میں خلافت کے ملوکیت میں بدلنے کے مسئلے پر ایک کتاب ”کشف الاسرار“ میں بحث کی تھی جس میں حضرت علیؑ کے خلاف بغاوت کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے حدیث میں خوارج کے لئے آنے والے سخت الفاظ استعمال کیے۔ چونکہ اس ایک جملے میں خوارج کا نام نہیں لیا گیا تھا، لہٰذا جب 80 سال کی عمر میں وہ انقلاب لائے تو اس جملے کے پس منظر میں موجود حدیث کو پس پشت ڈال کر خوب پراپیگنڈا کیا گیا حالانکہ انہوں نے انقلاب کے بعد ایران میں اس کتاب کی اشاعت پر پابندی لگا دی اور اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا تھا۔

لیکن جب انہوں نے سعودی علما کو اپنے ملک میں اسلامی انقلاب (سنی وہابی علما کی حکومت) نافذ کرنے کی دعوت دی تو سعودی خفیہ اداروں کی طرف سے اس کتاب کے عربی نسخے عام کر دیے گئے۔ پاکستان میں اس کتاب کی بنیاد پر بہت قتل و غارت کی گئی ہے۔ البتہ خلفائے راشدین کے بارے میں ایران کے سیاسی علما کا کیا مؤقف تھا، یہ بات فرقہ وارانہ مناظروں کے ماحول میں دب کر رہ گئی کیونکہ شیعہ علما بھی ان باتوں کو سامنے لا کر مناظروں میں فریقِ مخالف کے ہاتھ کوئی حوالہ نہیں لگنے دینا چاہتے تھے۔

البتہ اب ایک چالیس سال پرانی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں آیت الله خمینی کے بیانات علاوہ ایرانی انقلاب کے فکری پیشوا آیت الله مطہری کی تقریر سے بھی ایک حصہ شامل ہے جو ان کی کتاب ”خدمات متقابل ایران و اسلام“ کا حصہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے جہاں ان کی باقی سب کتب اردو میں ترجمہ ہوئیں، یہ کتاب نہ ہو سکی۔ آیت اللہ خمینی کے بیانات کو بھی ”صحیفہ امام“ نامی کتاب میں دیکھا کیا جا سکتا ہے۔

آیت الله خمینی کی زبانی حضرت عمرؓکے فضائل کا بیان:

’’اسلام اخوت ہے۔ شروع کے زمانے میں لوگوں میں کوئی اونچ نیچ نہ تھی۔ دوسرے خلیفہؓ جب اپنے ایک فتح شدہ علاقے میں گئے، تو جب منزل کے قریب پہنچے تو سواری کی باری غلام کی تھی۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو غلام اونٹ پر سوار تھا اور خلیفہ نے مہار تھام رکھی تھی۔ اگر ایک ایسی حکومت قائم ہو جائے جو آغازِ اسلام کے زمانے میں تھی، تو کیا کوئی اس چیز کی آرزو کرے گا کہ وہ اپنے لئے چیزیں جمع کرے؟ کیا کسی قسم کی انانیت باقی رہ جائے گی؟ اپنے اور غیر کی تفریق باقی رہ جائے گی؟ اسلام میں اپنے اور پرائےکا امتیاز نہیں ہے۔ سب بھائی ہیں، سب ایک جیسے ہیں۔

پہلے تیس سالوں میں اسلام نے دو سلطنتوں کو شکست دے دی۔ ایران کو مکمل طور پر فتح کیا اور روم کے بھی بہت سے علاقے فتح کر لیے۔ دو بڑی مملکتوں کو اس لئے شکست دی تاکہ دنیا میں عدل قائم کریں اور غریب لوگوں کو لوٹ مار سے بچائیں۔ وہ خالی ہاتھ تھے لیکن ان کے پاس ذہنی طاقت تھی۔ ہمارے جیسے نہ تھے کہ ان کے ارادے کمزور ہوں۔ اسلام نے انہیں نفسیاتی طاقت دی تھی۔ اسلام کی دی گئی الٰہی طاقت کی مدد سے مٹھی بھر افراد نے اسلام کی دعوت کا پرچم اٹھا کر دو عظیم سلطنتوں کو فتح کر لیا۔ ایران تو تیس سال کے اندر اندر مکمل فتح ہو گیا۔ ایران و روم فتح ہوئے اور مملکت اسلامی کی سرحدیں افریقہ اورسپین تک پھیل گئیں۔

اب لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں جمہوریت کا نظام چاہیے۔ ہم اگر اسلام کے ابتدائی عرصے کا مطالعہ کریں کہ جو اسلام کا متن ہے اور دیکھیں کہ کیا یہ حکومت جمہوری تھی یا ڈکٹیٹر شپ تھی؟ وہ داستانیں جو تاریخ میں آئی ہیں، کیا ان کی مثال آج کے ترقی یافتہ ممالک میں پیدا کی جا سکتی ہے؟ جب عمر مصر کی فتح کے بعد، جب اسلام قدرت مند ہو چکا تھا، دورہ کرنے گئے تو ان کے پاس ایک اونٹ تھا اور ایک غلام۔ اگر ہم عمر کو خلیفہ نہیں مانتے پھر بھی ان کا یہ عمل اسلامی کردار کی عکاسی کرتا ہے، یعنی پیغمبرؐ اکرم بھی ہوتے تو یہی کرتے۔ آپ ان سب جمہوری ممالک میں ایسی ایک مثال پیدا کر سکتے ہیں؟ اپنے وقت کا حکمران، جس کی سلطنت آج کے ایران یا فرانس سے کم طاقتور نہ تھی، اس جیسا کوئی جمہوری حکمران اپنے غلام کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے کہ ایک اونٹ ہو جس پر وہ باری باری سوار ہوں اور کسی قسم کا رعب اور نمائش نہ ہو؟ یہ جمہوری حکمران کسی فتح شدہ ملک میں داخل ہوتے وقت ایسا انداز اپنا سکتے ہیں؟ یہ بھی ایسے ملک میں داخل ہو رہے ہیں جو فتح کر لیا ہے، اور انداز یہ ہے کہ اونٹ پر غلام سوار ہے اور مہار خود کھینچ رہے ہیں“۔



آیت الله مطہری کی زبانی حضرت عمرؓکے فضائل کا بیان:

’’لوگ کہتے ہیں کہ ایرانی کیوں اس قدر اسلام کے عاشق ہیں؟ آخر کیوں عاشقِ اسلام نہ ہوں؟ عمر ابن خطابؓ کو خبر ملتی ہے کہ سعد ابن ابی وقاصؓ نے کوفہ میں محل تعمیر کرایا ہے۔ اب دیکھیے یہ اسلام کی روح کو جاننے والا مرد کیا کرتا ہے۔ بزرگ صحابی محمد ابن مسلمہ کو ایک خط دے کر بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس خط کو سعد ابن ابی وقاص تک پہنچاؤ۔ لیکن یہ خط دینے سے پہلے کوئی بات کیے بغیر لوگوں کو اکٹھا کر کے محل کے گرد گھاس پھوس ڈال کر اس کو آگ لگا دینا۔ سعد ابن ابی وقاص بیٹھے ہیں، دیکھتے ہیں کہ محمد ابن مسلمہ آتے ہیں اور کوئی بات کرنے سے پہلے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ گھاس پھوس اکٹھا کریں۔ سعد ابن ابی وقاصؓ کی آنکھوں کے سامنے اس عمارت کو آگ لگانے کے بعد خط ان کے حوالے کیا۔ خط میں عمرؓ نے کیا لکھا ہے؟ اے سعد ابن ابی وقاصؓ، کیا تم ساسانیوں کے طور طریقوں کو اپنانا چاہتے ہو؟ دوبارہ اسی طرح اپنے دروازے عوام کے لئے بند کرنا چاہتے ہو؟ اسے کہتے ہیں برائی کو پھیلنے سے پہلے ختم کرنا۔ تمہیں اس قسم کے محلات میں رہنے کا حق نہیں، تمہاری زندگی بھی باقی لوگوں جیسی ہونی چاہیے۔ ایرانی عوام نے جب ایک ایسی حکومت کو دیکھا تو حیران ہو گئے۔

عمرو عاص کے نام خط میں کہتے ہیں کہ تم نے کب سے لوگوں کو غلام سمجھ لیا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد پیدا کیا تھا؟ جب ثابت ہوا کہ عمرو عاص کے بیٹے نے اس شخص کو تازیانہ یا تھپڑ مارا ہے تو خلیفہ نے اس کا قصاص لیا۔ تمھارے بیٹے نے تازیانہ مارا ہے تو اسے بھی تازیانہ مارا جائے گا اور مارا بھی، ایک دفعہ اپنے سگے بیٹے کو بھی اسی طرح کسی بات پر سزا دی۔ چنانچہ اگر قانون طاقتور ہو تو نفوذ رکھنے والے اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ طاقتور لوگوں کا قانون پر اثر انداز نہ ہو سکنا ہی عدل کا صحیح مفہوم ہے“۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے سیاسی علما بھی عمران خان کی طرح ’ریاستِ مدینہ‘ کے جدید دور پر قیاس مع الفارق کو بروئے کار لا کر اقتدار میں آئے، اگرچہ بعد ازاں ان کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا تو جدید تہذیب کو بہت حد تک اپنا لیا۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔