نظریاتی اختلاف سے مولانا مودودی کا مرتبہ کم نہیں ہوتا؛ فیض احمد فیض

اصل میں یہ بہتان طرازیوں اور دشنام کا رواج ہی بعد میں چلا ہے۔ مولانا کے ہاں اختلاف کرنے کا ایک قاعدہ اور مخالفت سننے کا ایک سلیقہ تھا۔ نظریات کی مخالفت اور چیز ہے، جبکہ شخصی بہتان طرازی ایک دوسری چیز ہے۔ مولانا کے ہاں بہتان طرازی نہ تھی۔

نظریاتی اختلاف سے مولانا مودودی کا مرتبہ کم نہیں ہوتا؛ فیض احمد فیض

نوٹ: زیر نظر انتہائی دلچسپ انٹرویو کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ یہ انٹرویو ایک انقلابی شاعر فیض احمد فیض سے لیا گیا تھا اور جس شخصیت کے بارے میں سوالات کیے گئے وہ مولانا مودودی ہیں۔ دونوں ہی فکر و عقیدہ کے معاملے میں ایک دوسرے سے بہت دور تھے لیکن بڑے لوگ بڑے دل سے نوازے جاتے ہیں۔ دونوں ہی حضرات ایک دوسرے کے شخصی، علمی اور ادبی امتیازات و خدمات کے قائل و معترف نظر آتے ہیں۔

یہ انٹرویو 13 دسمبر 1982 کو فیض احمد فیض کے گھر پر جمیل احمد رانا اور سلیم منصور خالد نے ریکارڈ کیا تھا۔ فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض اور ڈاکٹر حسن رضوی بھی اس مجلس میں شریک تھے۔

سوال: بیسویں صدی کے جدید اردو ادب میں بیداری کی تحریک اور انقلابی شعور کے حوالے سے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ چار آدمیوں نے روایت سے کٹے بغیر اردو ادب کو سب سے زیادہ انقلابی جذبہ و قوت عطا کی ہے۔ نثر میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے، جبکہ شعر و سخن کے میدان میں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض نے۔ بظاہر چاہے ان کے فکری اثرات نظر نہ آئیں یا تعصب کے سبب اس حقیقت سے انکار بھی کیا جائے مگر اس دور کے ادبی پس منظر میں یہ چار آدمی نمایاں نظر آئیں گے جنہوں نے کسی نہ کسی حوالے سے اہلِ دانش، عوام اور خواص کو ادب و فکر اور ابلاغ کے دائروں میں متاثر کیا ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

فیض احمد فیض: بھئی! ہم تو کسی شمار میں نہیں ہیں، باقی تین بزرگوں کے بارے میں انہوں نے جو کہا ہے وہ بلا مبالغہ صائب ہے۔

سوال: پاکستان کے کم و بیش ہر مکتب فکر کے اہل قلم کی نگارشات کا مطالعہ میرا موضوع ہے۔ اس ضمن میں میں نے مولانا مودودی کو بھی پڑھا ہے۔ ان کے معرکتہ الآرا رسالہ ترجمان القرآن کے پرانے فائل دیکھتے ہوئے ایک چیز نظر سے گزری۔ یعنی یہ زمانہ 1940 کا ہے جس میں مولانا نے ایک کالج میں خطبہ تقسیم اسناد دیا تھا جو ترجمان میں شائع ہوا۔ خطبہ کے آغاز میں ایک صفحے کا تعارفی نوٹ تحریر کرتے مولانا مودودی نے لکھا ہے؛

'کچھ مدت ہوئی مجھے ایک اسلامیہ کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہاں اس بات کی داد نہ دینا ظلم سمجھتا ہوں کہ جس تلخ صاف گوئی سے میں نے اپنے خطبہ میں کام لیا اسے وہاں نہایت ٹھنڈے دل سے سنا گیا اور بہتوں نے صداقت کا اعتراف بھی کیا۔ کالج کے پرنسپل ایک ایسے صاحب تھے جو موجودہ زمانہ کے 'ترقی پسندوں؛ کی صف اول میں ہیں۔ میرے نقطہء نظر سے ان کو سخت اختلاف ہونا ہی چاہئیے لیکن اپنی 'ترقی پسندی' کے ایک کھلے دشمن کو دعوت دینے والے وہ خود ہی تھے اور اس کی تلخ گفتاری کو بھی سب سے زیادہ خندہ پیشانی کے ساتھ انہوں نے ہی سنا۔ اگرچہ ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ تلخ صداقت مجھے ان دارالعلوموں میں بھی جا کر عرض کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جہاں مسلمانوں کی نوخیز نسلوں کے ساتھ اس سے بدتر معاملہ ہو رہا ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ سوٹوں میں لاکھوں عیوب کے باوجود جتنے بڑے دل چھپے ہوئے ہیں، جُبّوں میں اتنے بڑے دل بھی نہیں ہیں۔ جو کچھ میں ایک کالج میں کہہ گزرا اس کا بیسواں حصہ بھی کسی دارالعلوم میں اس سے بہت زیادہ ادب کے ساتھ دست بستہ عرض کروں تو جان کی امان نہیں پا سکتا'۔

اس کے بعد مولانا نے اپنا پورا خطبہ شائع کیا جس میں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ 'دراصل میں آپ کی اس مادر علمی کو، اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ علمی کو، درسگاہ کے بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں، میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (Death Certificate) ہیں'۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ مولانا کو خطاب کی دعوت دینے والے ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور آپ تھے۔

سوال یہ ہے کہ جب آپ لوگ ان کے خیالات سے واقف تھے اور وہ بھی آپ کے فکری رخ کو پہچانتے تھے تو آپ نے مولانا مودودی ہی کو کیوں مدعو کیا اور وہ بھی کالج کے دوسرے جلسہ تقسیم اسناد میں، حالانکہ وہ تو کوئی نواب تھے نہ بڑے ڈگری یافتہ اور نہ کوئی مشہور لیڈر تھے۔ بس ایک ماہانہ پرچے کے ایڈیٹر تھے اور 36 سال کے نوجوان۔

فیض احمد فیض: اس لئے کہ مولانا مودودی صاحبِ علم اور صاحبِ فضل تھے۔ وہ عالم بھی تھے۔ اپنی طرز کے مقرر بھی تھے۔ قطع نظر اس کے کہ اختلافات تو لوگوں میں ہوتے ہی ہیں، لیکن اس سے افراد کی بزرگی میں یا ان کی عظمت میں فرق نہیں آتا، خواہ رائے کے ساتھ اختلاف بھی کیوں نہ ہو۔ وہ (مولانا) اسی زمانے میں پنجاب میں وارد ہوئے تھے اور اسلامیہ کالج میں پڑھا بھی رہے تھے، جب تقسیم اسناد کے کانووکیشن کی تقریب ہو رہی تھی اور اسی زمانے میں ہم نے ان کی تحریریں دیکھی تھی اور ان کا نام بھی تجویز کیا تھا کہ ایک عالم ہمارے ہاں وارد ہوا ہے تو اپنے طلبہ کو ان سے روشناس ہونے کا موقع میسر آنا چاہئیے۔ اس خیال سے ان کو مدعو کیا تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس تقریب سے وہ بھی خوشنود گئے تھے اور ہم لوگ بھی فیض یاب ہوئے۔ یہ درست ہے کہ وہ کوئی رئیس، نواب یا عہدے دار نہ تھے مگر صاحب علم و فضل تو تھے اور اصل چیز تو یہی ہوتی ہے۔

سوال: آپ نے مولانا مودودی کی کوئی خاص تحریر پڑھی ہے؟ اس کا کوئی قابلِ ذکر تاثر؟

فیض احمد فیض: ہم نے ان کی بہت سی تحریریں پڑھی ہیں جن میں 'تفہیم القرآن' سے لے کر 'تفہیمات' تک سب کتابیں شامل ہیں۔ تاثر تو سب سے پہلے ہمارا یہی ہے کہ جس قدر سلاست اور Lucidity سے وہ بیان کرتے ہیں وہ اپنی جگہ طرز تحریر کے اعتباس سے مفید چیزیں ہیں۔ مولانا اپنی تحریر میں پرشکوہ الفاظ سے مرعوب نہیں کرتے، بلکہ ندرتِ استدلال سے قائل اور ایمان کی سچائی سے مسحور کرتے ہیں۔

سوال: مغربی تہذہب کے ایک نقاد کی حیثیت سے اور دینی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے مولانا کا مقام آپ کی نظر میں کیا ہے؟

فیض احمد فیض: بات یہ ہے بھئی کہ ہم ان مسائل کے محقق یا ناقد تو نہیں ہیں، تہذیب مغرب پر تنقید کوئی نئی چیز نہیں تھی، اس لئے کہ اس ضمن میں ہمارے علما کی جانب سے ایک تنقیدی روایت چلی آ رہی تھی۔ جہاں تک نظر دوڑا کے ہم نے سوچا، دیگر علما کے مقابلے میں مودودی صاحب کا نقطہ نظر اس معاملے میں زیادہ معتدل ہے۔ اکثر و بیشتر استدلال وہ عقلی توجیہ سے کرتے ہیں، محض روایتی طریقے سے نہیں کرتے۔ انہوں نے تہذیب مغرب پر جذباتی انداز سے نہیں بلکہ غیر جذباتی اور استدلالی انداز سے تنقید کی ہے۔

سوال: تاریخ پاکستان کے ابتدائی دو تین برسوں کے بارے میں جب ہم پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ڈیڑھ دو سال کے دوران ہی دو گروہوں کے خلاف داروگیر کا سلسلہ شروع ہوا جس میں عام اجتماعی و سیاسی گروہوں میں سے ترقی پسند زیر عتاب تھے اور دوسری جانب دینی طبقوں سے مولانا مودودی اور ان کے رفقا جبر کا سامنا کر رہے تھے۔ کیا اس عمل کے پس منظر میں حکمرانوں کی کوئی مخصوص نفسیات کارفرما تھی یا اس کے کوئی دوسرے عوامل بھی ہیں؟

فیض احمد فیض: یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ حکومت بھی نہیں کہنا چاہئیے وہ بہت 'بڑی چیز' ہے، بلکہ بیوروکریسی کہنا چاہئیے کیونکہ بیوروکریسی کا اس طبقے پر نزلہ گرتا ہے جو ان کی نمبرداری کو پوری طرح قبول نہیں کرتے اور جو بجا طور پر اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ زندگی کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی کاروبار میں جو بھی نقائص ہیں یا کوتاہیاں ہیں یا غلطیاں ہیں ان کی درستی کی جائے، وہ ایک نقطہ نظر سے درست کی جائے یا دوسرے نقطہ نظر سے درست کی جائے، اس پر مکالمہ ہو سکتا ہے۔ باقی ظاہر ہے کہ جو بھی تنقید کرے گا اور چودھراہٹوں کو تسلیم نہیں کرے گا، لاٹھی تو اسی پر برسے گی نا، اور جو لوگ چپ کر کے گھر میں بیٹھیں گے اور کہیں گے کہ سب ٹھیک ہے، ظاہر ہے کہ انہیں کوئی بھی نہیں چھیڑے گا۔ ہمیشہ کوئی بھی حاکم وقت ہو، بادشاہ ہو یا ڈپٹی کمشنر ہو، اس پر جب بھی اور جو بھی تنقید کرے گا، اسی پر اس کی نگاہ پڑے گی۔ دوسروں کی طرف تو نگاہ نہیں پڑتی۔ پس ان طبقوں کا یہی نفسیاتی مسئلہ ہے جو ہمارے ساتھ بھی اور مودودی صاحب کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔

سوال: کیا یہ بات تو نہیں ہے کہ مقتدر طبقے سمجھتے ہوں کہ یہ جان دار اور مںظم قوتیں ہیں، اس لیے ان کو ابتدا ہی میں دبا لیا جائے۔ یہ بات بھی تو ہو سکتی ہے؟

فیض احمد فیض: ہاں، ہاں! اس کا یہی پہلو ہے۔

سوال: مولانا سے آپ کی کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟

فیض احمد فیض: شمار تو مشکل ہے البتہ اول اول ہماری ملاقات امرتسر میں ہوئی تھی، پھر وہ ہمارے کالج میں اسلام پر خصوصی لیکچر دینے آئے تھے، اس کے بعد تقسیم اسناد کے موقع پر آئے تھے۔ اس دوران میں لاہور میں ان سے ملاقات رہی۔ جب پاکستان بن گیا تو ہم 'امروز' اور 'پاکستان ٹائمز' سے وابستہ تھے، ان دنوں بھی ملنا رہا۔ پھر وہ بھی 1953 میں گرفتار تھے، تب کچھ عرصہ جیل میں ملاقاتیں رہیں۔

سوال: وہ کس طرح؟

فیض احمد فیض: جب 1953 کا پہلا مارشل لاء آیا تو مودودی صاحب سزائے موت سننے کے بعد عمر قید بھگت رہے تھے۔ دوسری جیل سے ہم مولانا والی جیل میں دو چار ہفتوں کے لئے علاج کی غرض سے منتقل کیے گئے تھے۔ اس طرح مل بیٹھنے کا اچھا موقع ہاتھ لگا۔

سوال: جیل کے دنوں میں ایک دوسرے کے ذہن کو سمجھنے سمجھانے کا بڑا نادر موقع ملتا ہے، فرد باہر کے ماحول سے کٹ کر غور و فکر اور احتساب فکر و ذات کرتا ہے۔ اس لیے اس گرفتاری کے دوران جیل میں، اسپتال میں آپ کی جو ملاقاتیں مولانا مودودی سے ہوئیں ان کے کچھ احوال بیان کیجئے۔

فیض احمد فیض: نہیں ہم نے تو اس زمانے میں سیاسی گفتگو نہیں کی، ان سے شعر و ادب کی باتیں ہوتی تھیں۔ ہمیں عربی، فارسی کی کوئی پرانی پڑھی ہوئی بات یاد آتی تو اس پر باتیں ہوتی تھیں۔ یہی یاد پڑتا ہے کہ بیش تر وقت ہم شعر و سخن کی باتیں ہی کیا کرتے تھے۔ ان کا اردو، فارسی، عربی، شعر و ادب کا بھی خاصا مطالعہ تھا۔ جیل خانے جا کر آدمی تھوڑی دیر کے لئے سیاست سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔

سوال: مولانا نے آپ کی مخالفت میں کبھی کوئی بات کہی اور اس پر آپ کا ردعمل؟

فیض احمد فیض: جہاں تک مجھے یاد ہے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اصل میں یہ بہتان طرازیوں اور دشنام کا رواج ہی بعد میں چلا ہے۔ مولانا کے ہاں اختلاف کرنے کا ایک قاعدہ اور مخالفت سننے کا ایک سلیقہ تھا۔ نظریات کی مخالفت اور چیز ہے، جبکہ شخصی بہتان طرازی ایک دوسری چیز ہے۔ مولانا کے ہاں بہتان طرازی نہ تھی۔

سوال: بحیثیت سیاسی رہنما مولانا مودودی کا قومی جمہوری تحریکوں میں جو کردار رہا ہے اس کے بارے میں۔۔۔؟

فیض احمد فیض: سیاسی سوال مجھ سے نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ باقی بات یہ ہے کہ قانون کی عمل داری اور شہری آزادیوں یا جمہوریت کی بحالی کے ضمن میں مودودی صاحب کی جدوجہد سے کون انکار کر سکتا ہے؟ وہ نا صرف روشن خیال رہنما تھے بلکہ بہت بڑے ڈیموکریٹ اور عملاً شہری حقوق کے داعی تھے۔ پاکستان میں پہلے سیاسی اتحاد ' سول لبرٹیز یونین' میں ہم نے مشترکہ جدوجہد بھی کی۔

سوال: ایک نظریاتی مخالف ہونے کی حیثیت سے ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

فیض احمد فیض: ہم کسی کے مخالف نہیں ہیں۔

سوال: آپ کی شاعری کے متعلق مولانا مودودی کی کیا رائے تھی؟

فیض احمد فیض: وہ ہم سے ہمارے شعر سنتے تھے۔ ان میں شعر و سخن کا ستھرا ذوق تھا اور تنقیدی حس بھی۔

سوال: پاکستان کے نظام تعلیم کی قومی تشکیل نو اور معیار کی بہتری کے لیے آپ کیا فرماتے ہیں؟

فیض احمد فیض: نظام تعلیم کو نظریاتی لحاظ سے مؤثر اور قومی لحاظ سے باثمر بنانے کا جو سوال ہے اسمیں ہم سمجھتے ہیں کہ نظام تعلیم کو کسی صورت میں بھی سیاسی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں نظام تعلیم ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، وہ اپنی نوعیت اور اہمیت کے لحاظ سے سیاسی نظام مملکت پر منحصر ہوتا ہے۔ ہم تو ابھی تک اپنا سیاسی نظام ہی نہیں طے کر سکے، نظام تعلیم کی باری تو بعد ہی میں آئے گی۔