نئے مالی سال 2023-24 کا 14 ہزار 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے سے گریز کیا گیا ہے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے 11 کھرب 50 ارب کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے اور دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
نئے مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا جہاں بحث و تمحیص کے بعد بجٹ کی منظوری دی گئی۔ اس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا۔
وفاقی کابینہ نے گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ گریڈ 17 سے اوپر کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد تک ایڈہاک اضافے کی منظوری دی ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے مزدور کی کم سے کم ماہانہ اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اگلے مالی سال کا بجٹ 14460 ارب روپے کا ہے جبکہ نئے مالی سال کے لئے آمدن کا ہدف 9200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
نئے مالی سال میں وفاقی بجٹ کا خسارہ 7574 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے جو موجودہ مالی سال کے نظرثانی تخمینے میں 6400 ارب ہے۔ نئے مالی سال میں ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے 7303 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
دفاعی بجٹ میں اضافہ
اگلے مالی سال میں دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ گذشتہ مالی سال کے دوران دفاعی بجٹ 15 کھرب 23 ارب روپے تھا جس میں رواں سال اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ گرانٹس کی مد میں 1464 ارب رکھے گئے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں سبسڈی دینے کے لیے 1074 ارب روپے وقف کیے گئے ہیں۔
سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے حکومت کی جانب سے 7 کھرب 14 ارب روپے مہیا کیے گئے ہیں جبکہ نئے مالی سال میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 11 کھرب 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 10 کھرب 74 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیر پروگرام، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، ریلویز اور دیگر محکموں کیلئے 14 کھرب 64 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران وزیر خزانہ نے بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لئے 9 کھرب 50 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے 2 کھرب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 11 کھرب 50 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔
صحافیوں اور فنکاروں کے لئے ہیلتھ انشورنس کارڈ
وزیر خزانہ نے بتایا کہ صحافیوں اور فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ اقلیتوں، سپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز اس کے علاوہ ہیں۔
کم سے کم پنشن اور اجرت میں اضافہ
پنشن کی مد میں 7 کھرب 61 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کی جارہی ہے۔ وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جارہی ہے، صوبے اس حوالے سے اپنا فیصلہ کریں گے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا ہے۔
ترسیلات زر کے ذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر ٹیکس میں چھوٹ
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ میں ترسیلات زر کےذریعے غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ ریمٹنس کارڈ کی کیٹگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ڈائمنڈ کارڈ جاری ہو گا۔
فری لانسرز کے لئے ٹیکس سہولتیں
نئے بجٹ میں فری لانسرز کیلئے ٹیکس سہولتوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے اور یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔ فری لانسرز کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا لہٰذا کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی برآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ان کے لیے ایک سادہ انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ آئی ٹی خدمات فراہم کرنے والوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالرز سالانہ مقرر کی گئی ہے۔
زراعت کے شعبے کے لئے سبسڈی میں اضافہ
وزیر خزانہ نے بتایا کہ زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں لہٰذا اگلے مالی سال میں 50,000 زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے Rice Planters , Seeder اور Dryers کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
سولر پینل سستے ہو جائیں گے
سولر پینل کی مینو فیکچرنگ کے خام مال اور سولر پینل کی مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے سولر پینل کی مینوفیکچرنگ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی ہے، سولر پینل کی بیٹریز کی تیاری کے خام مال پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے جبکہ سولر پینل کی مشینری کی درآمد اور سولر پینل کے انورٹر کے خام مال پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔
ڈائپرز کی مینوفیکچرنگ کے خام مال کی درآمد پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے اور تمام ضروری اشیا کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ملک میں تھنر کی مینوفیکچرنگ کے لیے متعلقہ خام مال پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے جبکہ پولی ایسٹر کی مینوفیکچرنگ کے لیے مختلف خام مال پر ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
معدنیات کے شعبے کی مشینری امپورٹ کرنے پر ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ٹیکسٹائل کے شعبے کے رنگ اور دیگر متعلقہ خام مال پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔
آئی ٹی سے متعلقہ سامان پر ڈیوٹی فری درامد کی اجازت کی منظوری دی گئی ہے جبکہ کھانے پینے کے سامان میں ذائقہ دار پاؤڈر کی درآمد پر عائد ڈیوٹی میں رعایت دی گئی ہے اور رائس ملز کی مشینری کی درآمد پر بھی ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔
نان فائلر 50 ہزار سے زیادہ رقم نکالنے پر ٹیکس دیں گے
نان فائلر افراد کی جانب سے بینک سے رقم نکالنے کو دستاویزی اور ان کی ٹرانزیکشن کے اخراجات بڑھانے کیلئے 50 ہزار روپے سے زائد کی رقم نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
لیپ ٹاپ سکیم کے لئے 5 ارب روپے مختص
وفاقی بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے موجودہ اخراجات کی مد میں 65 ارب اور ڈیویلپمنٹ اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈوومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لائے جانے کی تجویز ہے، جس کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔
لیپ ٹاپ سکیم کے تحت حکومت آئندہ مالی کے لیے ایک لاکھ لیپ ٹاپس کی میرٹ کی بنیاد پر طلبا کو دیے جانے کی تجویز ہے۔ اس سکیم کے لیے 10 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے۔ وویمن امپاورمنٹ کے لیے پانچ ارب روپے بھی مختص کیے گئے ہیں۔