38 فیصد نوجوانوں نے پی ٹی آئی، 22 فیصد نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا: گیلپ سروے

ایگزٹ پول کے مطابق 2013کےمقابلے میں 30سال سےکم عمرکےنوجوانوں کا ووٹر ٹرن آؤٹ حالیہ انتخابات میں 9فیصد بڑھااور 34فیصد نوجوان ووٹرز انتخابی عمل کا حصہ بنے.2018میں یہ شرح31فیصد اور ،2013 میں 25فیصد تھی۔

38 فیصد نوجوانوں نے پی ٹی آئی، 22 فیصد نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا: گیلپ سروے

ایک حالیہ سروے کے مطابق 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں نوجوان ووٹرزکا ٹرن آؤٹ 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں 11فیصد بڑھا جبکہ انتخابات میں نوجوانوں نے  پاکستان تحریک انصاف  کو اور پُختہ عمر کے لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا ۔

سرکردہ ریسرچ اور سروے کمپنی گیلپ پاکستان نےتقریباً4ہزار ووٹرز کی رائے پر مبنی ایگزٹ پول جاری کردیا۔

سروے کے مطابق 38 فیصد نوجوانوں نے پی ٹی آئی، 22 فیصد نے مسلم لیگ ن اور 15 فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ ڈالا۔

سروے میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی میں نئے ووٹرز بننے والے نوجوانوں کے 38 فیصد ووٹ لیے۔اس کے علاوہ پسماندہ، تعلیم یافتہ اور امیرطبقات کا ووٹ حاصل کرنے میں بھی پی ٹی آئی کامیاب رہی۔ ن لیگ ناخواہندہ، مڈل پاس، متوسط آمدنی والے طبقے میں زیادہ مقبول رہی جبکہ پیپلزپارٹی کی بھی تمام حلقوں میں حمایت برقرار ہے۔

سروے کے مطابق تحریک انصا ف 31فیصد پاپولر ووٹ حاصل کرنے میں کامیا ب ہوئی جبکہ مسلم لیگ ن 24فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پررہی۔ نوجوان ووٹرزکا ٹرن آؤٹ بھی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 11فیصد بڑھا ، جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہواہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو 18سے 24 سال کی عمرکے 38فیصدنئےرائے دہندگان نے ووٹ دیا.گزشتہ انتخابات میں یہ شرح 35فیصد تھی ۔

سروے میں بتایا گیا کہ مسلم لیگ ن کو 22فیصد ، پیپلزپارٹی کو 15فیصد نئے رائے دہندگان نے ووٹ ڈالا۔اس عمر کے نوجوانوں میں دونوں جماعتوں کی سپورٹ ایک فیصد بڑھی۔ 18سے 24 سال کے ووٹرز حاصل کرنے کی دوڑ میں ن لیگ پی ٹی آئی سے 16فیصد پیچھے رہ گئی لیکن 50سال سےزائد عمر کے ووٹرز میں ن لیگ نے میدان مار لیا اور 30فیصد کا ووٹ حاصل کیا .پی ٹی آئی کو 20فیصد ، جبکہ پیپلزپارٹی کو 13فیصد نے ووٹ دینے کا کہا۔

 ایگزٹ پول کے مطابق پی ٹی آئی کی 25سال سے زائد عمر کے ووٹرزمیں حمایت5فیصد کم ہوئی ہے۔2018میں یہ تعداد 31 فیصد تھی جو حالیہ انتخابات میں گھٹ کر 26فیصد رہ گئی ۔ن لیگ میں بھی یہ شرح 1 فیصد کم ہوکر 24فیصد ہوگئی ہے مگر 2018 کے مقابلے میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان 6فیصد کا فرق کم ہوکر 2 فیصد رہ گیا ہے۔

ٹرن آؤٹ کے حوالے سے گیلپ سروے میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں نوجوان ووٹرزکا ٹرن آؤٹ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 11فیصد بڑھا اور اس میں کافی بہتری آئی اور یہ قومی ٹرن آؤٹ کے قریب آگیا ہےانتخابات 2024 میں 18سے 29 سال کے 48فیصد یوتھ نے ووٹ ڈالا۔ گزشتہ انتخابات میں یہ شرح 37فیصد تھی ۔ دیگر عمر کے ووٹرز کی شرح میں 4فیصد کمی آئی اور یہ ،52سے 48فیصد ہوگیا ہے .ایگزٹ پول کے مطابق 2013کےمقابلے میں 30سال سےکم عمرکےنوجوانوں کا ووٹر ٹرن آؤٹ حالیہ انتخابات میں 9فیصد بڑھااور 34فیصد نوجوان ووٹرز انتخابی عمل کا حصہ بنے.2018میں یہ شرح31فیصد اور ،2013 میں 25فیصد تھی۔ہائی سکول یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ووٹرز میں تحریک انصاف زیادہ مقبول نظر آئی جبکہ ناخواندہ اور مڈل پاس ووٹر ز کی زیادہ حمایت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ملی 

ایگزٹ پول کے مطابق پی ٹی آئی کو 18سے 24سال کی عمر کےہائی سکول یا اس سےزیادہ تعلیم یافتہ 41فیصد نئے رائےدہندگان نے ووٹ دیا .یہ شرح گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ ہے جبکہ ن لیگ کےلیے اس عمر اور تعلیمی قابلیت رکھنے والے رائے دہندگان کے ووٹ میں 2 فیصدکمی آئی اور 21فیصد نے ووٹ دینے کا کہا۔ بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری رکھنے والوں میں پی ٹی آئی کو 35فیصد، ن لیگ کو 15فیصد،جبکہ 10فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کا کہا۔ اس کے برعکس ناخواندہ افرادمیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ دکھائی دیا۔ ناخواندہ افرادمیں 29فیصد نے ن لیگ ، 23فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کا کہا جبکہ پی ٹی آئی کے ووٹر میں ناخواندہ افرادکی شرح 21فیصد نظر آئی ۔  مڈل تک تعلیم یافتہ افراد میں 31فیصد نے ن لیگ، 26فیصد نے پی ٹی آئی جبکہ 15فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کاکہا۔

واضح ہے کہ چند روز قبل پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی جانب سے جاری کی گئی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق اپنی جائزہ رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق 2024 کے عام انتخابات میں منصفانہ سکور سب سے کم ریکارڈ کیا گیا۔ پچھلے انتخابات کے مقابلے 2024 کے الیکشن میں شفافیت کے سکور میں کمی دیکھی گئی۔

پلڈاٹ نے عام انتخابات  کے حوالے سے جائزہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں سب سے کم منصفانہ سکور ریکارڈ کیا گیا جب کہ انتخابات کے شیڈول میں کافی تاخیر، سیاسی جبر، نگران حکومت کی غیر جانبداری کا فقدان بھی دیکھا گیا۔

اس جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن سے قبل خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال تھی جب کہ پولنگ کے دن موبائل، انٹرنیٹ سروسز معطل کی گئیں جس کی وجہ سے انتخابی عمل میں عوام کی شرکت میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ فارم 45 اور فارم 47 کے درمیان بڑے پیمانے پر تفاوت کے الزامات نے بھی انتخابات کی ساکھ کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا۔

پلڈاٹ نے عام انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے نگران حکومتوں کے مینڈیٹ کو بھی مشکوک قرار دے دیا۔