آپ نہ دیکھیں ورنہ چشمہ ٹوٹ جائے گا

آپ نہ دیکھیں ورنہ چشمہ ٹوٹ جائے گا
آپ نہ دیکھیں ورنہ چشمہ ٹوٹ جائے گا۔ آپ سوچ رہے ہوگئے کہیں لکھاری چشمے کے کنارے پر کھڑا یا بیٹھا ہوا ہے۔ اور کوئی اس سے آکر کہتا ہے کہ اے آپ نا دیکھیں آپ کی نظر لگ جاتی ہے اور یہ چشمہ اتنا خوبصورت ہے کہ کوئی بھی دیکھ لیں تو شاید کسی کی بھی نظر لگ سکتی ہے ۔ اس لئے اُس سے بھی کسی نے کہا ہوگا کہ چشمہ ٹوٹ سکتا ہے۔


لیکن یہ وہ چشمہ نہیں ہے۔ کوئی اُس چشمہ کے بات کرتا ہے جس کو اگر میں نہ پہنوں تو کوئی بھی چیز چاہے جاندار ہو یا بے جان، بڑی ہو یا چھوٹی ، نزدیک ہو یا دور پھر واضع طور پر مجھے نظر نہیں آئے گی ۔ اس لئے انہوں نے احتیاط کے طور پر مجھے کہا کہ آپ نہ دیکھیں ورنہ چشمہ یعنی عینک ٹوٹ جائے گی ۔


یہ کوئی بدمعاش نہیں تھا پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر یا فزیشن تھا جو میرے علاج کے دوران مجھ سے کہہ رہا تھا۔ کہ آپ میری طرف نہ دیکھا کریں بلکہ میرے بائیں جانب دیکھا کریں۔ کہیں میرے ہاتھ سے آپ کا چشمہ نہ لگے اور ٹوٹ جائے۔


مجھے مشرق کی بیٹی، سابقہ وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو یاد آرہی ہیں جس کو صاف صاف کہا گیا تھا کہ محترمہ آپ پاکستان نہ آئیں ورنہ کچھ ایسا ہوسکتا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کی جان چلی جاسکتی ہیں۔ لیکن محترمہ نڈر باپ کی بیٹی تھی۔ وہ پاکستان آئی اور پلان کے مطابق محترمہ کے ساتھ ویسا ہوا جس طرح اُس کو خبردار کیا گیا تھا۔ نہ ماننے کا انجام کیا ہوا ؟ 


خیر گزشتہ شب جب آنکھیں بند ہوئیں تو خواب میں پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن ( پی ٹی وی) دیکھ رہا تھا کہ حسب روایات سے حسب معمول یعنی پرائیوٹ اشتہارات کے بجائے گورنمنٹ کی اپنے اشتہارات جو کرونا وائرس کے حوالے سے سکرین پر چل رہے تھے۔ وہ کرونا وائرس کے سارے اشتہارات اے ٹو زیڈ خواب میں دیکھ رہا تھا۔


ایک اشتہار میں حکومت، عوام کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے کہ کرونا وائرس جان لیوا مرض نہیں ہیں بلکہ اس کے 97 فیصد مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ اس غلط بیانیوں سے  عوام کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔


دوسرے اشتہار میں عوام کے لئے یہ میسیج ہوتا ہے کہ گھر پر رہیئے گھر سے بابر نہ نکلیں۔ سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھیں۔ ماسکس اور سینٹائزرز کا استعمال کریں۔


اور تیسرا تو معروف گلوکار علی ظفر نے گانا گا کر، اپنے گلے کو خراب کرکے عوام کو میسیج دیا کہ اس وقت دنیا میں تمام انسانیت ایک بہت بڑی مشکل سے گزر رہی ہے اور اسے ہم سب کو مل کر لڑنا ہے۔ اس سے ہم کیسے لڑیں گے یہ بھائی بتائے گا۔ بعد ازاں ویڈیو میں علی ظفر نے گٹار بجاتے ہوئے منفرد انداز میں گانے کو کچھ یوں سنایا ’میرے خیالوں پہ چھایا ہے ایک وائرس متوالا سا، اوپر سے شرمیلا سا، اندر شیطان کا سالا سا‘۔ علی ظفر نے اپنے  ’کو کو کورونا‘ گانے میں  لوگوں کو وائرس سے متعلق احتیاط برتنے کے حوالے سے ہاتھ ملانے سے گریز کرنے کے حوالے سے بھی الفاظ کو شامل کیئے ہیں۔ 


ایک تو پی ٹی وی نے عوام کو کنفیوژن کا شکار کردیا ہے کہ کرونا سے ڈرنا نہیں اور ساتھ میں کہتے ہیں کہ لڑنا ہے۔ کبھی کہتے ہیںق جان لیوا مرض نہیں تو کبھی کہتے ہیں گھر پر رہیئے تاکہ آپ کے پیاروں کی زندگی محفوظ رہیں وغیرہ وغیرہ، اور اوپر سے علی ظفر!


ہائے ہائے علی ظفر! تاریخ لکھے گی کہ ایک نامور گلوکار کاپی پیسٹ میں اتنا تیز تھا کہ ''کو کو کورینا'' کو ''کو کو کورونا''  بنا کر گایا۔ اور دوسرا سوال تاریخ پوچھے گی ۔ شرمیلا سا، متولا سا اور شیطان کا سالا سا وائرس وباء تھا یا افواہ تھا۔


چلو اس بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا جو بھی ہے وباء یا افواہ! لیکن جتنا ہوسکے شرمیلا سا، متولا سا اور شیطان کا سالا سا سے خود کو بچائیں ورنہ کسی کا مان ٹوٹ نہ جائے، کسی سے رشتہ ٹوٹ نہ جائے، اس سے بڑھ کر کہیں ہجر کا سامنا کرنا نہ پڑے۔


پھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی

جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کیا گھبرانا کیا

(ابن انشاء)