سینئر تجزیہ کار رضا رومی نے کہا ہے کہ پاک فوج کے اندر بغاوت یا دراڑیں ڈالنے کی کوشش پاکستان کیلئے ایک سنگین چیلنج ہے۔ قومی ادارے کیساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے رضا رومی نے کہا ہے کہ پاکستان عالمی برادری کا ممبر، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا اور جوہری صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ ہمیں آرمی کیساتھ جتنی بھی شکایات ہوں، سیاسی طور پر ہم نے اس پر جتنی بھی تنقید کی ہو لیکن اس چیز کی قطعی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی، چاہے وہ عمران خان ہو یا کوئی اور کہ وہ اس ادارے کو تقسیم کرنے کی کوشش کرے۔ اب پاک فوج کیلئے یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ آ چکا ہے کہ وہ اس بیانیے کو روکے۔
پروگرام کے دوران گورنر پنجاب کے معاملے پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ اس معاملے پر بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کیہ صدر مملکت کے اختیارات صرف اسی وقت تک ہیں جب تک وہ آئینی دائرے کے اندر اپنا کام کریں گے۔ اگر وہ آئین کے تحت کام نہیں کریں گے تو معاملہ عدلیہ میں جائے گا۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ جہاں تک میری سمجھ بوجھ ہے، اس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 48 کے بعد کیبنٹ ڈویژن گورنر کو نوٹیفائی کر دے گی، اس کے تحت 25 دنوں کے بعد صدر کی اپروول کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد ایڈوائس کو صدر کی منظوری کی ضرورت نہیں رہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف گورنر پنجاب ہی نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے گورنرز کا معاملہ عدالت سے سیٹ ہوگا۔ حکومت اس معاملے کے حل کیلئے سپریم کورٹ جائے گی۔ میرے خیال میں جس طرح 58 ٹوبی کو ختم کیا گیا، اسی طرح اب پارلیمان کو صدر مملکت اور گورنر کے استثنیٰ کو بھی ختم کرنا پڑے گا۔
اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اگر آئین کے تحت امور انجام نہ دے تو عدالت عظمیٰ اسے فوری طور پر طلب کر سکتی ہے، سپیکر اگر ووٹنگ نہ کرائے تو رات 12 بجے عدالتیں کھولی جا سکتی ہیں، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر سوموٹو ہو سکتا ہے لیکن اگر صدر اور گورنر آئین کے تحت کام نہ کریں تو اس معاملے پر عدلیہ کے ہاتھ کافی حد تک بندھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر اور گورنر پر نہ تو کورٹ توہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے اور نہ ہی ان کو طلب کر سکتی ہے کیونکہ آئین کے تحت انھیں استثنیٰ حاصل ہے۔ اسی استثنیٰ کا پچھلے ایک ماہ سے انتہائی غلط استعمال دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اب تو ان اختیارات کے معاملے پر نئی آئینی ترامیم کرنا پڑیں گی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا بیانیہ صرف 31 مئی تک ہے، اسلام آباد دھرنا بری طرح ناکام ہوگا۔ ٹویٹر پر بیٹھے پی ٹی آئی کے حامیوں کو جب ریاست کی طاقت اور سیاسی قوت کا اندازہ ہو جائے گا تو سب خس وخاشاک کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے عمران خان صاحب خود جیل میں ہوں۔