Get Alerts

مجھے اور میری فیملی کو سنگین خطرات کا سامنا ہے، انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے: زکیہ نورین خٹک

زکیہ نورین خٹک نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی کے ممبر کے حیثیت سے میں نے بیوہ اور غریب خواتین بشمول کچھ کرسچین خواتین کے نام بیت المال سے جاری ہونے والے فنڈز کیلئے دیے جس پر مجھے سخت تنقید کا سامناکرنا پڑا۔ لوگوں میں یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ یہ بھی کرسچن بن گئی ہے۔ جس پر علاقے کے طالبان نے مسجد کے لاؤڈ سپیکرپر میرے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا۔ اس کے بعد علاقے کے تشدد پسند طالبان کے ایک گروپ نے میرے بھائی اکرام اللہ اور ان کے دو بچوں کو 80 لاکھ روپے تاوان کے عوض اغواء کر لیا اور اب ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر ہم نے انصاف کا مطالبہ کیا تو ہمیں قتل کر دیا جائے گا۔

مجھے اور میری فیملی کو سنگین خطرات کا سامنا ہے، انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے: زکیہ نورین خٹک

خیبر پختونخوا کے ضلع کرک سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم رکن پاکستانی امریکن خاتون زکیہ نورین خٹک کی فیملی کے دو بچے مقامی طالبان تشدد پسند گروپ نے اغواء کرکے انکی رہائی کے بدلے 80 لاکھ روپے تاوان مانگ لیا۔

انہوں نےوزیراعظم، چیف جسٹس اور وفاقی وزیر داخلہ سے اپیل کی کہ خاندان کو قتل سمیت دیگر سنگین خطرات کا سامناہے انصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے۔

تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع کرکے سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم رکن پاکستانی امریکن خاتون زکیہ نورین خٹک نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی واحد اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور ایم بی اے کرنے کے بعد علاقے کی خواتین کے حقوق اور اُن کی بہتری کیلئے میدان عمل میں قدم رکھا اور ویمن اویئرننس ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لا کر علاقے خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے کئی پرا جیکٹس پر بھی کام کیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس دوران ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نےممبر آف ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اور بیت المال کمیٹی منتخب کر لیا۔ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی کےممبر کے حیثیت سے میں نے بیوہ اور غریب خواتین بشمول کچھ کرسچین خواتین کے نام بیت المال سے جاری ہونے والے فنڈز کیلئے دیے جس پر مجھے سخت تنقید کا سامناکرنا پڑا۔ جس پر میں نے جواب دیا کہ آئین پاکستان کے مطابق بیت المال سے جاری ہونے والے فنڈز پر دوسروں کا بھی حق ہے مگر کمیٹی کے دیگر ممبران نے مجھے ہدف تنقید بنایا اور لوگوں میں یہ جھوٹی خبر پھیلا دی کہ یہ بھی کرسچن بن گئی ہے۔ جس پر علاقے کے طالبان نے مسجد کے لاؤڈ سپیکرپر میرے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا۔ اس کے بعد علاقے کےتشددپسندطالبان کے ایک گروپ نے میرے بھائی اکرام اللہ اور ان کے دو بچوں کو 80 لاکھ روپے تاوان کے عوض اغواء کر لیا اور اب ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر ہم نے انصاف کا مطالبہ کیا تو ہمیں قتل کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور ہمیں اپنے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم 2009 میں پشاور چلے گئے جس کے بعد میں اپنے ننھے بیٹے کے ساتھ امریکہ ہجرت کر گئی۔میرے جانے کے بعد طالبان میری فیملی کو ہراساں کرتے رہے اور یہ سلسلہ پچھلے 24 سالوں سے جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی فلاح و بہبود اور اپنے والدین کی زندگی کیلئے آج بھی انصاف کی متلاشی ہوں۔ زکیہ نورین خٹک نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی سےاپیل کی کہ انہیں اورانکےخاندان کوانصاف اور تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ آزادانہ اپنی زندگی گزار سکیں۔