امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایک آزاد، دو طرفہ اور وفاقی کمیشن ہے جو امریکہ میں 1998 میں بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے ذریعے تشکیل دیا گیا۔ یہ کمیشن مختلف ممالک میں مذہبی آزادی یا عقیدے کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی معیارات بمطابق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی شق 18 اور دیگر بین الاقوامی دستاویزات کی روشنی میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ ان خلاف ورزیوں میں عبادت گاہوں کی تعمیر کے اجازت نامے سے انکار سے لے کر کسی خاص مذہب یا عقیدے کو رکھنے یا اس پر عمل کرنے کی وجہ سے افراد کو حراست، تشدد، قتل یا بے گھر کرنا شامل ہیں۔
کمیشن ہر سال جائزہ رپورٹ کی روشنی میں اپنی سفارشات امریکی صدر، سیکرٹری آف سٹیٹ اور کانگریس کو بھی پیش کرتا ہے۔
یو ایس کمیشن کی 2024 کی سالانہ رپورٹ میں سال 2023 کے دوران 28 ممالک میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں اور پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ قارئین کرام کے لئے یہاں اس رپورٹ میں پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے پیش کی گئی صورت حال، پیش رفت اور سفارشات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مکمل تفصیلات کے لئے کمیشن کی رپورٹ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی مکمل رپورٹ یہاں پڑھی جا سکتی ہے
2023 میں پاکستان میں مذہبی آزادی کے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ مذہبی اقلیتوں کو ان کے عقائد کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ انہیں تکفیر کے الزامات پر ہجومی تشدد، جلاؤ گھیراؤ اور جبراً تبدیلی مذہب کا نشانہ بنایا گیا۔ عبادت گاہوں پر حملے اور ان کی بے حرمتی کے واقعات بھی سال بھر رونما ہوتے رہے۔ اس دوران حکومت چند ایک مثبت اقدامات و اصلاحات کرتی بھی نظر آئی جن میں دینی علوم کو مذہبی اقلیتوں کے لیے اختیاری قرار دینا قابلِ ذکر ہے مگر اس پالیسی اقدام پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ بہرحال اہانتِ دین کے قوانین میں ترامیم متعارف کروانے سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی لہر میں اضافے کا خطرہ برقرار رہا۔
قومی انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں نے سیاسی فائدے کے لیے اہانتِ دین کے قوانین کا فائدہ اٹھایا۔ جنوری 2023 میں قومی اسمبلی نے اہانتِ دین قانون کے تحت سزا کو مضبوط اور مزید سخت بنانے کے لیے متفقہ طور پر ایک ترمیم منظور کی۔ فروری میں پنجاب میں ایک ہجوم نے پولیس سٹیشن پر حملہ کر کے محمد وارث نامی ایک شخص کو قتل کر دیا جس پر مبینہ طور پر تکفیر کا الزام تھا۔ اگست میں سینکڑوں افراد کے ہجوم نے جڑانوالہ کی مسیحی رہائشی آبادی پر حملہ کر کے درجنوں گرجا گھروں اور گھروں کو نذرِ آتش کر دیا یا جزوی نقصان پہنچایا۔ ستمبر میں ایک شیعہ عالم پر تکفیر کےالزام کے بعد گلگت بلتستان میں احتجاج اور پُرتشدد جھڑپوں کا آغاز ہوا۔
2023 میں مذہبی اقلیتوں اور اُن کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے میں نمایاں اضافہ ہوا۔ جنوری میں ایک خودکش حملہ آور نے پشاور میں ایک مسجد پر حملہ کیا جس میں لگ بھگ 100 افراد شہید ہوئے۔ جون میں ایک تنظیم نے پشاور میں ایک سکھ شخص کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ ستمبر میں بلوچستان میں دو مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ سال بھر مذہبی اقلیتوں کو عقائد کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ 2023 میں تین سکھ افراد کو دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک کر دیا گیا۔ جنوری میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے پاکستان میں مسیحی اور ہندو لڑکیوں کی جبراً تبدیلی مذہب میں مبینہ اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ جولائی میں سندھ میں ایک مندر پر اس خبر کے بعد حملہ کیا گیا کہ ایک پاکستانی مسلمان خاتون نے ہندوستان میں ایک ہندو مرد سے شادی کر لی ہے۔ مزید براں 2023 کے دوران احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہوں پر تین درجن سے زائد حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں توڑ پھوڑ اور بے حرمتی بھی شامل ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
امریکی حکومت کے لیے سفارشات
*پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر ایک بار پھر 'تشویش ناک ترین ملک' قرار دیا جائے۔ (یاد رہے پاکستان مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے 2018 سے مسلسل 'تشویش ناک ترین ممالک' کی فہرست میں شامل ہے)
** مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی سرکاری اداروں اور اہلکاروں کے اثاثے منجمد کر کے اور/ یا ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
***بین الاقوامی معاہدہِ مذہبی آزادی کے سیکشن 405 سی کے تحت حکومت پاکستان کو پابند کیا جائے کہ وہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے عملی اقدامات اُٹھائے، نیز اس ضمن میں کم از کم درج ذیل اقدامات کیے جائیں؛
الف) اہانتِ دین کے مبینہ الزامات میں قید افراد کو رہا کیا جائے جو اپنی مذہبی شناخت اور عقائد کی وجہ سے قید ہیں۔
ب) تکفیر کے قوانین کو قابلِ ضمانت جرم قرار دینے کے لئے اصلاحات متعارف کروائی جائیں، نیز الزام لگانے والوں کو ثبوت مہیا کرنے کا پابند بنائیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام سے مناسب تفتیش کو یقینی بنائیں، حکام کو بے بنیاد الزامات کو مسترد کرنے کی اجازت دیں اور تعزیرات پاکستان کے موجودہ قوانین کو نافذ کریں جو جھوٹی گواہی اور جھوٹے الزامات کو جرم قرار دیتے ہیں۔
ج) ایسے تمام افراد کو جوابدہ بنایا جائے جو تشدد، اقدام قتل، جبری تبدیلی مذہب اور مذہبی بنیادوں پر دیگر جرائم پر اکساتے یا ان میں حصہ دار بنتے ہیں۔
امریکی کانگریس کو چاہیے کہ باہمی ملاقاتوں، خطوط کے تبادلے اور کانگریس کے وفود کے ذریعے امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی وسیع تر نگرانی میں مذہبی آزادی کے خدشات کو شامل کرے اور پاکستان میں ضمیر اور مذہب کی بنیاد پر قید افراد کی رہائی کے لیے وکالت کرے۔
مسیحیوں کے خلاف ایذا رسانیاں
اگست 2023 میں سینکڑوں افراد کے ہجوم نے جڑانوالہ کی مسیحی برادری پر حملہ کیا اور 24 گرجا گھروں اور متعدد گھروں کو نذرِ آتش کیا جبکہ ایک قبرستان کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب دو مسیحیوں پر مبینہ طور پر اہانت مذہب کا الزام لگایا گیا۔ ان الزامات کے بعد ایک مذہبی جماعت کے اراکین نے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مساجد سے اعلانات کروائے۔ ہجوم جڑانوالہ شہر سے باہر کے لوگوں پر مشتمل تھا۔ توڑ پھوڑ اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی کا یہ عمل لگ بھگ 10 گھنٹے تک جاری رہا اور پولیس نے کوئی خاطر خواہ مداخلت نہیں کی۔ نومبر 2023 تک تمام تباہ شدہ گرجا گھروں کی مرمت نہیں کی گئی تھی۔ حکام کی جانب سے حملے میں ملوث 200 کے قریب افراد کو گرفتار کرنے کے باوجود مسیحیوں میں خوف برقرار ہے۔
عبادت گاہوں پر حملے
2023 میں پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ ستمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 1984 سے پہلے تعمیر کی گئی احمدیوں کی عبادت گاہوں کو نقص نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس فیصلے کے باوجود کئی جگہوں پر عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی اور ان میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔
29 دسمبر 2023 کو امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر ایک بار پھر پاکستان کو 'تشویش ناک ترین ممالک' کی فہرست میں شامل کر لیا، کیونکہ سرکاری ادارے، اہلکار اور قانون سازی مذہبی آزادی پر قدغنیں لگانے کا حصہ ہیں، نیز خلاف ورزیوں اور تشدد کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
تاہم امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کو قومی مفاد میں چُھوٹ دیتے ہوئے 'تشویش ناک ترین ملک' قرار دیے جانے کے باوجود معاشی پابندیاں عائد کرنے سے اجتناب کیا ہے۔