بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے، بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دے دیا جبکہ مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کے لیے متبادل کے طور پر علیحدہ زمین فراہم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے بابری مسجد کیس سے متعلق فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سنی سینٹرل وقف بورڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے متنازعہ زمین کو تین حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ غلط تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجن گوگئی نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 1856 سے پہلے اس سر زمین پر کبھی بھی نماز ادا کی گئی ہو، جبکہ بابری مسجد جس ڈھانچے پر تعمیر کی گئی اس کا کوئی اسلامی پس منظر نہیں ہے۔
بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندو رام چبوترہ، سیتا راسوئی کی پوجا کرتے تھے۔ ریکارڈ میں موجود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ متنازعہ اراضی ہندوؤں کی ملکیت تھی۔
بابری مسجد فیصلے کے حوالے سے پورے بھارت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔
بابری مسجد کیس کا پس منظر
6 دسمبر 1992 میں ایودھیا بابری مسجد کا تنازع اس وقت پرتشدد صورت اختیار کر گیا تھا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔
جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔
ابتدائی فیصلہ
جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔ بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔
بابری مسجد پر مسلمانوں کا مؤقف
بابری مسجد کے حوالے سے مسلمانوں کا موقف ہے کہ یہ سال 1528 سے قائم ہے، مسجد کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے خلاف 1855، 1934 اور 1949 میں کیس کیے گئے تھے۔ 1885 کے مقدمے کی دستاویزات سے مسجد کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے، مسلمانوں کے پاس اس جگہ کی ملکیت تھی اور وہ 22، 23 دسمبر 1949 تک یہاں عید کی نماز پڑھتے رہے۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اے ایس آئی کی رپورٹ میں مسجد کے نیچے مندر کی بات محض ایک دعویٰ ہے جس کے سائنسی حقائق موجود نہیں۔
بابری مسجد پر ہندوؤں کا مؤقف
ہندوؤں کا موقف یہ ہے کہ یہ مندر صدیوں پہلے بنایا گیا تھا، جسے ممکنہ طور پر راجہ وکراما دتیا نے بنایا ہوگا اور پھر 11ویں صدی میں اسے دوبارہ بنایا گیا۔ اس مندر کو 1526 میں بابر نے یا پھر 17ویں صدی میں ممکنہ طور پر اورنگزیب نے گرا دیا تھا۔
تاریخی دستاویزات جیسے سکاندو پرانا یا اس کے بعد میں آنے والے ایڈیشنز، سفرناموں اور دیگر کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔
فیصلے کے بعد بھارتی مسلمانوں کا رد عمل
بابری مسجد کیس کی پیروی کرنے والے بھارتی مسلمانوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے جانے والے بابری مسجد کیس کے فیصلے میں انصاف نہیں ہوا۔ مسلم بورڈ نے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔