ایک تھی آرزو ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہے آرزو

ایک تھی آرزو ۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہے آرزو

آرزو “ کتنا خوبصورت لفظ ہے ناں؟ جیسے کوئی اپنا خواب بیان کرنے جا رہا ہو ، کوئی اپنی سب سے خوبصورت ، ان کہی خوشی کا تذکرہ کرنے والا ہو ، مگر اگر کوئی آرزو کچلی جائے ، ٹوٹ جائے ، کھو جائے تو یہی لفظ زندگی کا سب سے بڑا روگ بھی بن جاتا ہے، ایک ایسا دکھ جو ساری عمر ساتھ چلتا ہے ، کبھی کسی خوشی پر دل سے خوش نہیں ہونے دیتا ، کبھی سکون کا پل دو منٹ بھیٹھہرنے کی اجازت سے انکاری کر دیتا ہے ۔


ایک ہی لفظ خوشی بھی بے مثال اور دکھ بھی لازوال خود میں چھپائے ہے ، اب یہ قسمت کے کس کی زندگی میں اپنا کون سا رنگ دکھائے ۔


ایسی ہی ایک آرزو کی کہانی ہے ، بلکہ بہت سی آرزوں کی کہانی ہے جن کی قسمت میں روگ کا ہونا لکھا تھا ، مگر یہ روگ ان کےحصے میں آنے کی وجہ صرف ان کا عورت ذات سے تعلق ہونا ہے ، اس تکلیف کا گھاؤ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے کہ اگر عورت بھی اقلیت سے تعلق رکھتی ہو ۔


اکثریت ہونا ، بہت بڑا امتحان ہے، کیونکہ اکثر جگہ پر اکثریت ہونا آپ کو اپنے غلط کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتا ہے ۔جیسے طاقتور ہونا آپ کو اپنے ظلم سے بے پروا کر دیتا ہے ،


ہمارے معاشرے میں مرد طاقت میں ہمیشہ سے رہا ہے تو جنس مخالف پر اس کے ظلم کے قصے اکثر و بیشتر آشکار ہوتے رہتے ہیں ،جس کو ہو اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بے حیائیاور بیرونی طاقتوں کا شاخسانہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے ، اور اگر اس کے سامنے اعداد وشمار رکھ دیے جائیں ، رکھ بھی دیے جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے ،


مگر جب آپ کا تعلق طاقت اور اکثریت دونوں سے ہو ، تو فرعون ہو جانا کوئی ایسا ناقابل یقین عمل نہیں رہتا ، پھر آپ اس زعم میں کسی کو زندہ بھی جلاتے ہو ، کسی کو خودکشی پر بھی مجبور کرنے پر قادر ہوتے ہو ، پناہ ملنے کی بس ایک صورت رہ جاتی ہے ، شاہ کی چھتر چھایا میں آ جانا ، شاید اسی لیے سنا ہے 2004 سے لیکر 2020 تک ہزار سے زیادہ اقلیتی خواتین مسلم مردوں کی چھایا میں آئیں ہیں۔


کس قدر حیرت ناک بات ہے ناں ، اکثراقلیتی عورتیں  مذہب بعد میں تبدیل کرتی ہیں اور شادی کے لیے پہلے آمادہ ہوتی ہیں ، کہیں یہ مذہب کی تبدیلی شادی کی وجہ سے ہی تو نہیں ہو رہی ہوتی ، مگر شاید نہیں ایسا نہیں ہو گا کیونکہ  شادی تو اہل کتاب سے بھی جائز ہےناں ؟


مگر کیسے کوئی کسی اہل کتاب سے شادی کرے ، جبکہ اکثریت تو اس قدر پاکیزگی کے عہدے پر فائز ہے کہ غیر مذہب کے شخص کےلیے پانی پلانے کے برتن تک الگ رکھتے ہیں ، تو جو آپ کے برتن کو ہاتھ لگانے تک کا اہل نہیں وہ آپ کے گھر میں مکین ہو نا ، نہ بابا نہ ، یہ تو ممکن نہیں (  مذہب جو مرضی کہتا رہے ، جب صاحب کا دل نہ مانے تو کیا کریں ، مذہب تو ان کے ساتھ دستر خوان تک بانٹنے کی اجازت دے مگر کبھی طاقتور اور کمزور بھی کچھ بانٹ سکے ہیں )


اس لیے آپ کا اس گھر کے مکین ہونے کو  مذہب بدلنا تو ضروری ٹھہرا ، اب سوچ میں ڈوبی ہوں کہ اگر مذہب تبدیلی شادی کی وجہ سے ہو رہی ہے تو واقعی محبت اندھی، آنکوں کی بھی اور عقل کی لازم ہوتی ہو گی ورنہ ایک تیرہ چودہ سال کی بچی ، جس عمر کےشخص کو چچا ، تایا کے بنا بات نہ کرے اس سے شادی پر آمادہ ہو ، اور اس قدر ہو کہ اپنا پیدائشی  مذہب ، گھر ، والدین سب چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے


اور اگر یہ  مذہب تبدیلی شادی کی وجہ سے نہیں ہے ، سچ میں ہمارے قول و فعل اس قدر عمدہ ہیں کہ دیکھ کر ہر کوئی متاثر ہونے بیتاب ہے تو ہمارے اپنے اس عمر کے اکثر بچے ، اسی  مذہب کی الف ، ب سے بھی نا آشنا کیوں رہتے ہیں، شاید گھر کی مرغی کودال کا درجہ دیتے ہوں گے ، ان بچوں ، نہیں نہیں ، صرف بچیوں کو دیکھیں کس قدر بردبار ، سنجیدہ اور سلجھی  ہیں کہ نوعمری میں اپنے مذہب کو بھی جان لیتی ہے ، دوسرے مذاہب کو بھی جان لیتی ہے دونوں کا تقابل کر کے ،  مذہب تبدیلی کو گھر ، والدین سب چھوڑنے پر بھی آمادہ ہو جاتی ہیں ، مگر پھر مذہب تبدیلی کے بعد جانے دماغ میں کیا کیڑا گھٹتا ہے کہ جس مذہب کے لیے اس قدر قربانی دی ہوتی ہے ، اس کو سمجھنے اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس کو سیکھنے کی بجائے  گرہستی بسانے چل پڑتی ہیں


کہانی تو شاید روز اوّل سے عیاں ہے مگر کیا کیا جائے ، کہنے والا خود کہاں اماں پائے گا سو چپ ہی بھلی


ہاں اگر منافقت کی عینک اتار دیں تو شاید ہم کہہ سکیں کہ جس عمر میں  مذہب صرف اس لیے ہوتا ہے کہ دعا مانگ کر اچھے نمبر لئے جا سکیں یا پسند کا کھلونا ، اس عمر میں اگر کسی کو سچائی مل رہی ہے تو وہ بچہ ، بچی قابل تعظیم لگیں ، ان کو عزت و احترام سےزندگی  گزارنے کے اسباب دیے جائیں ، بہن ، بیٹی بنا کر ساتھ رکھنے میں اگر محرم و نا محرم کا مسئلہ  دل دہلاتا ہے تو ایسے تمام نوعمر مسلمانوں کے لیے سب مل کر حکومتی سطح پر کوئی ادارہ بنائیں ، جوان کی رہائش ، حفاظت تعلیم کو یقینی بنائے۔


ایسے قابل قدر ہیرے جو اس قدر کم عمری میں دو دو مذاہب کا تقابل کر ، اس کے لیے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتے ہوں ، وہ مناسب تعلیمو تربیت کے بعد جانے ملک کے لیے کیسے انمول رتن ثابت ہوں گے ،


ان کو کم عمر کی بے جوڑ شادیوں میں دھکیلنے کو تو نہ چھوڑا جائے ، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ آپ کی بھی بچی ہے ( ویسے بھیاس ملک کی ہر بچی ، کو یہ حق حاصل ہے مگر یہاں  مذہب کے متعلق بات ہو رہی اس لیے لکھا ہے ) اب جیسا بر آپ اپنی بیٹی کے لیے چاہیں گے ویسا اس معصوم کے لیے بھی ڈھونڈیے


وہ تمام لوگ جو اپنے  مذہب میں آنے والے نئے لوگوں کو خوش آمدید کہنا چاہتے ہیں ، جو کسی غیر مسلم کو مسلم کرنے کو اپنی زندگی بھر کی کمائی مانتے ہیں ، دیکھیں یہ خواہش کتنی بڑی ذمہ داری لیکر آ رہی ہے ، اگر اس بچی کو علم ہو کہ جو مذہب بیٹی کو رحمت کہتا ہے ، اس کے ماننے والے اکثر ان رحمتوں کو ونی کرتے ، وٹے سٹے میں برباد کرتے ، پائے جاتے ہیں ۔ جس مذہب کے پیغمبرﷺ نے زینب رضہ کے والد کو جواب دیا تھا “ کہ طلاق ناپسندیدہ عمل ہے مگر کسی کو زبردستی شادی میں رہنے پر مجبور کرنا حرام ہے ۔ وہ یہ حرام کام کرتے بکثرت پائے  جاتے ہیں ، جہاں حقوق العباد کی اہمیت پر رکوع در رکوع اترے ہیں وہ ذرا ، ذرا سےاختلاف پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پائیں جاتے ہیں ، تو کیا سوچے گی وہ اس  مذہب کے بارے میں ؟


مگر ذرا سوچئے ، کیا اس نے واقعی آپ کے  مذہب کے بارے کچھ سوچا ہو گا ، کیونکہ اگر سچائی کا سامنا کیا جائے تو حقیقت عیاں ہے کہ ہمارے اعمال تو بحیثیت قوم کسی کو اس جانب مائل کرنے کے قابل نہیں ، یقیناً کچھ پڑھ کر ہی وہ اس جانب مائل ہوۓہوں گے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ جو شخص مسلم ہونے کی نیت سے آئے۔


# اس سے پوچھا جاۓ ، آپ کے اس مذہب  کی جانب مائل ہونے کی وجہ


# اپنے  مذہب سے بیزاری کی وجہ


# مذہب اسلام کے بارے بنیادی کچھ سوال ، جن سے اندازہ ہو سکے وہ اس بارے کچھ جانتے بھی ہیں کہ نہیں


# اگر  مذہب اللہ کے لیے بدلہ تو دوسرے دن شادی چہ معنی وارد


# ہمارا مذہب سوائے  کفر کے والدین سے آف تک نا کرنے کا حکم دیتا ہے ، تو ان کو بھی انکے والدین سے ملنے کی اجازت


( بلکہ وہ تو پھر اپنے والدین سے زیادہ قریب ہوں کہ جو روشنی خود پاۓ ہیں والدین تک بھی پہنچا سکیں )


# ان کی تعلیم ، حفاظت کا بندوبست


# مناسب عمر میں ریاست کے ولی بن کر ، ان کی مرضی سے پھر ان کی شادی


اگر ان نکات پر آپ نہیں سوچیں گے تو وہ مذہب جو کہتا ہے کہ “دین میں کوئی جبر نہیں “ اس کا کیا چہرہ دنیا کو دکھائیں گے


خود سے سوال کیجیے ، یہی سوال کوئی دوسرے کریں گے تو پھر تکلیف ہو گی


ہر آرزو کے لیے بس میری یہی آرزو ہے اگر وہ کبھی یہ فیصلہ کرے تو دل سے کرے جبر سے نہیں


( میں جانتی ہوں اس میں اقلیت کی تکلیف کی نمائندگی نہیں کی گئ ہے ، مگر یہ بلاگ میرے ہم مذہبیوں کے لیے خصوصی طور پر لکھاگیا ہے ، اس لیے ایک رخ واضح کیا گیا ، باقی مسائل کا احاطہ انشااللہ آئندہ )