معلومات تک رسائی کا قانون کئی رکاوٹوں کے باعث تاحال فعال نہیں ہو سکا

سرکاری اداروں میں ذمہ دار افسران اس لیے بھی آر ٹی آئی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ ضلع بھر کے سینکڑوں صحافیوں میں سے گنتی کے چند ایک صحافی معلومات تک رسائی کے لیے آر ٹی آئی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بھی متعدد مقامی صحافی آر ٹی آئی کے مکمل طریقہ کار سے لا علم ہوتے ہیں۔

معلومات تک رسائی کا قانون کئی رکاوٹوں کے باعث تاحال فعال نہیں ہو سکا

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے ضلعی صدر محمد عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ انہیں شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئے 7 سال ہو چکے ہیں اور اس دوران انہوں نے معلومات تک رسائی کا آئینی حق 54 بار استعمال کیا ہے۔ اس دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادارے کے ذمہ دار افسران اس قانون کے بارے میں خاطر خواہ آگاہی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے معلومات تک رسائی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اکثر افسران یہ سمجھتے ہیں کہ آر ٹی آئی کے تحت مصدقہ معلومات فراہم کرنے سے شاید ان کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خبر کے متعلق معلومات جو آر ٹی آئی کے تحت لی جاتی ہیں وہ متعلقہ افسران کی جانب سے تاخیر برتنے کی وجہ سے بے سود رہتی ہیں۔ وہاڑی میں کسی بھی محکمہ کے سربراہ کی جانب سے پبلک انفارمیشن آفیسرز تعینات نہیں کیے گئے اور خود افسران اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے آر ٹی آئی کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں حالانکہ ماضی میں متعدد بار انفارمیشن کمیشن کے ذریعے ان کی سرزنش بھی ہوئی ہے۔

عرفان چوہدری کے مطابق سرکاری اداروں میں ذمہ دار افسران اس لیے بھی آر ٹی آئی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ ضلع بھر کے سینکڑوں صحافیوں میں سے گنتی کے چند ایک صحافی معلومات تک رسائی کے لیے آر ٹی آئی کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے بھی متعدد مقامی صحافی آر ٹی آئی کے مکمل طریقہ کار سے لا علم ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے معاشرے کے لیے انتہائی مفید آئینی حق کے مؤثر استعمال کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ضلع وہاڑی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ممبران کی تعداد 327 ہے جن میں سے صرف 14 صحافیوں نے اب تک اس قانون کو استعمال کیا ہے جبکہ صرف 5 صحافی آر ٹی آئی کے بارے خاطر خواہ آگاہی رکھتے ہیں کہ درخواست دینے کے بعد کمیشن میں اپیل کیسے کی جاتی ہے۔

وہاڑی سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد سلیم (فرضی نام) کو شعبہ صحافت میں 19 سال ہو چکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آر ٹی آئی کے بارے میں وہ کیا جانتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ آر ٹی آئی کیا ہوتی ہے؟ مزید بات چیت پر انہوں نے بتایا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے حوالے سے وہ آج تک لاعلم تھے، اسی وجہ سے کبھی اس کا استعمال بھی نہیں کیا لیکن آئندہ انہوں نے آر ٹی آئی کے استعمال کا عزم کیا۔

کسی بھی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے سے مختلف قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت، آر ٹی آئی پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی کا حق استعمال کر سکے جو کہ قانون کے ذریعہ عائد کردہ ضابطے اور معقول پابندی کے تابع ہے۔ ایک شہری سرکاری محکمے کے علاوہ کسی نجی ادارے کی معلومات تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے جسے حکومت کی طرف سے کافی حد تک مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ آر ٹی آئی اس اصول پر مبنی ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری عوامی معلومات کے مالک ہوتے ہیں۔ آر ٹی آئی شفافیت، جوابدہی، بدعنوانی کے خاتمے اور عوامی خدمات کی فراہمی میں بہتری کو فروغ دیتا ہے۔ اس کا اطلاق حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام ڈیپارٹمنٹس، وزارتوں، ڈویژنز، اتھارٹیزاور باڈیز پر ہوتا ہے۔

نجی چینل کے رپورٹر رانا نعیم خالد کا کہنا ہے کہ چھوٹے شہروں کے صحافیوں میں اس قدر پروفیشنلزم نہیں ہوتا جتنا کسی بڑے شہر کے سٹاف رپورٹر میں ہوتا ہے۔ وہاڑی جیسے شہر میں بڑے چینل اپنا سورس رپورٹر 2 مقاصد کے تحت اعزازی طور پر تعینات کرتے ہیں۔ ایک تو وہ شخص جو مالی طور پر مستحکم ہو کیونکہ ان کی سکیورٹی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے جو رپورٹر ادا کرتا ہے اور دوسرا وہ تھوڑا بہت رپورٹنگ کی مہارت رکھتا ہو۔ باقاعدہ پروفیشنل کی نہ تو ادارے کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر صحافیوں کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس لیے باقاعدہ پروفیشنل صحافی چند ایک ہی ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم کے لحاظ سے کریئر کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس لیے آر ٹی آئی فائل کرنے کا اس قدر رجحان نہیں پایا جاتا۔

ضلعی پولیس کے ترجمان عدنان طارق کی رائے بھی ایسی ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ 2 سال میں کل 8 آر ٹی آئی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو راقم الحروف نے ہی فیلوشپ کے دوران بھیجی ہیں۔ اس کے علاوہ ضلعی پولیس کو کسی نے معلومات تک رسائی کی درخواست نہیں بھیجی۔

سنٹر فار لاء اینڈ ڈیموکریسی کے مطابق بین الاقوامی رینکنگ میں پاکستان 29 ویں نمبر پر ہے جبکہ ہمسایہ ملک کا آٹھواں نمبر ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس رینکنگ میں پہلے نمبر پر افغانستان ہے اور سب سے آخر میں پالاو نامی ملک ہے۔

28 ستمبر 2021 کو پارلیمنٹیرینز کمیشن فار ہیومن رائٹس، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس اور نیشنل پریس کلب کے اشتراک سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف اینکر حامد میر کا کہنا تھا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت معلومات تک رسائی کا حق ہر شہری اور صحافی کو پاکستان کا آئین دیتا ہے لیکن ادارے تاحال اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا بیان تھا کہ سینیٹ میں آر ٹی آئی بھیجی گئی کہ جینٹوریل سٹاف اور ان کی تنخواہوں کی تفصیل فراہم کی جائے لیکن انکار کر دیا گیا۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو فائل کی گئی آر ٹی آئی میں پوچھا گیا کہ رواں سال آنے والے کیسز کی تعداد فراہم کی جائے اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ کتنے کیسز نمٹائے گئے لیکن ادھر سے بھی انکار ہی ہوا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو فائل کی گئی آر ٹی آئی میں پوچھا گیا تھا کہ سینٹری ورکرز کی تفصیل فراہم کر دیں لیکن یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ یہ سکیورٹی ایجنسی ہے۔

جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان سے تعلق رکھنے والی تحقیقاتی صحافی انیلہ اشرف گذشتہ 19 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 2010 سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو پریکٹس کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے سماجی تنظیم سوسائٹی فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو نے اس حوالے سے ٹریننگ کا اہتمام کیا جس کا وہ حصہ تھیں اور خاص طور پر 2015 میں اس کا استعمال زیادہ ہو گیا تھا کیونکہ سرکاری اداروں میں کچھ افسران کو بھی اس بارے آگاہی ہو گئی تھی۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ خطے میں رہتے ہیں جہاں کے بیوروکریٹ شاہی طبیعت رکھتے ہیں اور خود کو اداروں کے مالک سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ کسی کو اس قانون کے تحت معلومات دیں یا نہ دیں، یہ ان کی صوابدید ہے۔

اس کی واضح مثال یہ ہے کہ 2017 میں ملتان کے مختلف محکموں کو 4 آر ٹی آئی فائل کی گئیں، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ملتان نادر چٹھہ نے درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا۔ اتفاق سے چند دن بعد معلومات تک رسائی کے موضوع پر ایک سماجی تنظیم کی جانب سے آر ٹی آئی بارے آگاہی سیشن رکھا گیا جس میں نادر چٹھہ بھی مدعو تھے۔ وہاں ان سے سوالات کیے گئے کہ آر ٹی آئی کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ بات چیت کے دوران اس قانون کی ایک کاپی ان کے ہاتھ میں موجود تھی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس قانون کو نہیں مانتے اور نہ ہی کوئی معلومات دیں گے جس پر ان کو قانون کی شقوں کے بارے میں بتایا کہ اگر آپ نے معلومات فراہم نہ کیں تو آپ کی تنخواہ میں کٹوتی ہو سکتی ہے یا پھر ملازمت سے فارغ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ تنخواہ میں کٹوتی ہو یا ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں، وہ معلومات فراہم نہیں کریں گے۔ یہ حال ہے ہماری افسر شاہی کا۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ جنوبی پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں کو حال ہی میں انہوں نے ہراسمنٹ کمیٹیوں اور ڈیٹا کے حوالے سے درخواستیں گزاری ہیں لیکن مقررہ وقت کے بعد اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔

انیلہ نے ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کیا کہ بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ادارے ڈیٹا فراہم کر دیتے ہیں لیکن قومی و مقامی صحافیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے انہوں نے کچھ معلومات کی غرض سے آر ٹی آئی فائل کی لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملا اور وہی معلومات ان کی ایک دوست کو فراہم کر دی گئیں جو بین الاقوامی ویب سائٹ سے منسلک ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ سرکاری اداروں میں موجود افسران کی مناسب ٹریننگ کی ضرورت ہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس قانون پر عمل درآمد میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری ادارہ کوئی بھی ہو، آر ٹی آئی کے تحت معلومات فراہم کرنے میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ اس لیے صحافیوں کو اپنی رپورٹنگ کے لیے دیگر غیر مصدقہ ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سر پر لٹکتی تلوار کے مانند ہے۔

سول سوسائٹی کے رہنما میاں جہانزیب یوسف کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن کرپشن اور اختیارات سے تجاوز بیوروکریسی میں عام ہے جس کی وجہ سے معلومات کی فراہمی میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ریاست سنجیدہ ہے تو اس قانون کے حوالے سے اپیلوں پر فوری فیصلے اور افسران کے ساتھ ساتھ عوام اور میڈیا میں بھی آگاہی کے لیے بروقت اور جامع اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عام آدمی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ وہاڑی سید ماجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ انہیں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پبلک انفارمیشن آفیسر تعینات کیا گیا ہے۔ مقامی صحافیوں میں آر ٹی آئی کے استعمال کا کچھ خاص رجحان نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ چھوٹے اضلاع میں میڈیا نمائندگان میں آگاہی نہ ہونا یا کم آگاہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت معلومات تک رسائی کے لیے آنے والی درخواستیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو چند درخواستیں آتی ہیں اس حوالے سے وہ تعاون کرتے ہیں لیکن معلومات کی فراہمی مکمل طور پر ان کے اختیار میں نہیں بلکہ متعقلہ محکمہ کے ذمہ داران ہی معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

ڈائریکٹر تعلقات عامہ ملتان سجاد جہانیاں کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے بارے انہیں صحافیوں کو معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ہیں بلکہ صحافی براہ راست ادارے سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔

سابق چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب انفارمیشن کمیشن زاہد عبداللہ بتاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کا قانون ایک صحافی کو شفافیت اور کرپشن کے حوالے سے تصدیق شدہ معلومات فراہم کرتا ہے اور اسے اپنے 'ذرائع ' کی مدد سے ملنے والی معلومات کنفرم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ صحافیوں کو آر ٹی آئی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر کے اپنی رپورٹنگ کو مزید مستند بنانا چاہئیے اور اگر ادارے کوئی رکاوٹ پیدا کریں تو انفارمیشن کمیشن ان کی ہر ممکن مدد کے لیے موجود ہے۔

سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ سی پی ڈی آئی پنجاب کے مینجر محمد فیصل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ جہاں تک آگاہی کی بات ہے تو کافی حد تک صحافیوں میں آ گئی ہے کیونکہ سماجی تنظیموں اور انفارمیشن کمیشن کی طرف سے مختلف اضلاع میں ٹریننگز اور آگاہی سیشنز کروائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے چند ایک شہروں جیسے ملتان، فیصل آباد اور لاہور میں آر ٹی آئی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ جو صحافیوں کو درپیش ہے وہ اداروں کی طرف سے رسپانس نہ دینا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2 سال قبل تک صحافیوں کی شکایات پر اداروں کے افسران کو نوٹسز بھجوائے جاتے تھے جن پر ان کی جواب طلبی بھی ہوتی تھی اور شکایات کا ازالہ معلومات کی فراہمی کی صورت میں کیا جاتا تھا لیکن پھر کمیشن کی جانب سے نوٹسز جانا کم ہو گئے اور پھر میسجز کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صورت حال اس قدر ابتر ہو گئی کہ شکایت کنندہ کو بتائے بغیر درخواست داخل دفتر کر دی جاتی ہے اور اس پر باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ مطلوبہ معلومات فراہم کر دی گئی ہیں حالانکہ حقیقت میں شکایت کنندہ لاعلم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ افسران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں اداروں کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہر کسی کے علم میں ہے۔ اس لیے افسران معلومات دینے سے کتراتے ہیں اور کمیشن بھی خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک انفارمیشن آفیسر اس ذمہ داری کو اضافی بوجھ سمجھ کر نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے صحافیوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور وہ مایوس ہو کر درخواست دینا چھوڑ کر دیگر ذرائع کی تلاش میں مصروف ہو گئے ہیں۔ حکومت کو چاہئیے کہ کمیشن کو دوبارہ مؤثر بنائے اور چند ایک افسران کو میرٹ پر سزائیں دے کر مثال بنایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دیگر متعدد قوانین کی طرح یہ بھی محض نام کا قانون رہ جائے گا۔

پروگرام مینجر سدھار سوسائٹی لاہور محسن ریاض رندھاوا کا کہنا ہے کہ 2013 سے اب تک اس قانون کے حوالے سے افسران نے ہمیشہ بیوروکریٹک سٹائل اپنایا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ لوگ درخواستیں دیتے ہیں لیکن ادارے کوئی رسپانس نہیں دیتے اور انفارمیشن کمیشن کو شکایت کا ازالہ نہیں ہوتا۔ یہ قانون اچھا ہے لیکن اداروں کی روایتی سوچ اور جزا و سزا کا عمل نہ ہونے سے اپنی افادیت کھو رہا ہے اور صحافی دوبارہ روایتی طریقوں سے معلومات کے حصول پر مجبور ہیں۔