بالآخر پھر وہی ہوا جو شہباز شریف اور حمزہ شہباز دیکھنے سے قاصر تھے یا شاید جانتے بوجھتے دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ شہباز شریف کی گرفتاری متوقع تھی اور توقعات کے عین مطابق انہیں نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار کر لیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری کی ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل ہے. ایک ایسے وقت میں جب نواز شریف اور مریم نواز چپ سادھے سیاست سے تقریباً لاتعلق بیٹھے ہیں اقتدار کے ایوانوں اور باخبر حلقوں میں نواز شریف اور مقتدر حلقوں کی ڈیل کی خبروں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی. شہباز شریف کی غیر متوقع گرفتاری نے بہت حد تک مفاہمت کے تاثر کو زائل کر دیا ہے۔ البتہ اس وقت کی موجودہ صورتحال میں نواز شریف نے توقعات کے برعکس شہباز شریف کی گرفتاری پر محض ایک مختصر بیان دیا اور محض عمران خان اور ان کی حکومت کو شہباز شریف کے خلاف انتقامانہ کارروائی کرنے کا مرتکب قرار دیا۔ حیران کن طور پر نہ تو نواز شریف نے کسی خلائی مخلوق کا ذکر کیا اور نہ ہی انہوں نے عدلیہ کے حوالے سے کوئی بات کی۔
نواز شریف اور ان کی جماعت کو اب کسی قسم کی سپیس فراہم نہیں کی جائے گی
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ایک چیز البتہ واضح ہو چکی ہے اور وہ یہ ہے کہ نواز شریف اور ان کی جماعت کو اب کسی قسم کی سپیس فراہم نہیں کی جائے گی۔ نواز شریف نے انتخابات سے قبل اپنے حصے کی جنگ لڑی اور عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ مار کر اس کو یہ جنگ ہرا دی گئی۔ نواز شریف کی جماعت نے جس دن انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا اسی دن ووٹ کو عزت دو کے بیانئیے کا اختتام ہو گیا۔ شہباز شریف نے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے مقتدر قوتوں سے تعلقات بہتر کرنے کی ہر ممکن سعی کی لیکن سب بےسود رہا۔ اس کے باوجود شہباز شریف مقتدر قوتوں اور نواز شریف کے درمیان ارابطے کیلئے ایک پل کا کردار انجام دیتے تھے اور ایسی صورتحال میں شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل کے کیس میں پہلے گرفتار کیا جانا اور پھر دس روز کے لئے احتساب عدالت کی جانب سے انہیں نیب کو جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیے جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
اس گرفتاری کے لئے وقت اور موقع کا درست انتخاب از حد ضروری تھا
آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں احد چیمہ پہلے سے ہی گرفتار ہیں اور ان پر اس سکیم میں اربوں روپے کے غبن کا الزام موجود ہے۔ شہباز شریف پر اس کیس میں الزام بطور وزیر اعلیٰ اپنے اختیارات کو ناجائز استعمال کرتے ہوئے من پسند افراد اور کمپنیوں کو ٹھیکے نوازنے سے متعلق ہے۔ اگر شہباز شریف نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا یا کرپشن کی تو نیب کو ضرور ان پر ہاتھ ڈالنا چاہیے تھا لیکن اس کے لئے وقت اور موقع کا درست انتخاب از حد ضروری تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب ضمنی انتخابات میں محض ایک ہفتہ بچا ہے اپوزیشن جماعت کے سربراہ کو اچانک ایک ایسے کیس میں بلا کر گرفتار کرنا بادی النظر میں سیاسی وکٹمائزیشن کے زمرے میں آتا ہے تاکہ مسلم لیگ نواز کو ضمنی انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ آئے اور تحریک انصاف کو اس کا سیدھا سیدھا فائدہ ہو۔
پارلیمنٹ کی بے توقیری اور اس کی وطن عزیز میں کمزور حیثیت پر ایک بار پھر مہر ثبت کر دی گئی
دوسری جانب شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اس قدر اہم عہدے پر فائز شخص کو گرفتار کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے قومی اسمبلی کے سپیکر کو مطلع کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے برعکس قومی اسمبلی کے سپیکر کے علم میں لائے بغیر شہباز شریف کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ یعنی پارلیمنٹ کی بے توقیری اور اس کی وطن عزیز میں کمزور حیثیت پر ایک بار پھر مہر ثبت کر دی گئی۔ دوسری جانب جہانگیر ترین پر آف شور کمپنی اور کالا دھن کما کر باہر بھیجنے کے عدالتی فیصلے کے باوجود نیب کی جانب سے کسی تفتیش کا آغاز نہیں کیا گیا۔ جبکہ علیم خان، ذلفی بخاری، عمران خان، پرویز خٹک کے کیسز نیب میں موجود ہونے کے باوجود نہ تو ان پر کوئی خاص پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہی نیب نے ان افراد میں سے کسی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پرویز مشرف، عدنان کیانی اور راؤ انوار بھی اس وقت آرام و سکون کے ساتھ قانون کی گرفت سے آزاد پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں جبکہ مقتدر قوتوں کے زیر عتاب مسلم لیگ نواز کے اہم اور کلیدی رہنماؤں کو تاک تاک کر نیب کے ذریعے گرفتار کروایا جا رہا ہے۔ چند دنوں میں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی گرفتاری بھی متوقع ہے اور دوسری جانب ماڈل ٹاؤن کیس میں رانا ثناالله کے خلاف گھیرا مزید تنگ کیا جا چکا ہے۔ ان حالات میں نواز شریف اور مریم نواز کا سوگ میں بیٹھ کر سیاست سے کنارہ کشی کرنا یا کسی وقتی مفاہمت کہ وجہ سے عملی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز نہ کرنا مسلم لیگ نواز کے لئے ایک تباہ کن اور خود کش سیاسی حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز کو ویسے بھی جلد سے جلد سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دینا چاہیے
سننے میں آ رہا تھا کہ نواز شریف 12 اکتوبر کو لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کر کے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا پھر سے آغاز کریں گے لیکن شہباز شریف کہ گرفتاری کے بعد کیا وہ سیاسی سرگرمیاں شروع کریں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اپنے اوپر سے مفاہمت یا ڈیل کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے نواز شریف اور مریم نواز کو ویسے بھی جلد سے جلد سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دینا چاہیے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت تنقید سننے اور ایک مؤثر اپوزیشن کا سامنا کرنے کی قابلیت ہرگز بھی نہیں رکھتے. ایسے میں اگر نواز شریف فی الوقت پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر دباؤ بڑھانے کے لئے ملک گیر جلسوں کا آغاز کر دیں تو تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کے دباؤ کو قطعاً برداشت نہیں کر پائے گی۔
تحریک انصاف پر دباؤ بڑھا کر نواز شریف سیاسی فائدہ لے سکتے ہیں
اقتصادی اور سفارتی محاذ پر پے در پے ناکامیوں کے باعث تحریک انصاف پہلے سے ہی دباؤ کا شکار ہے اور ملک کی گرتی ہوئی معیثت کو سہارا دینے کے لئے فی الفور اسے سعودیہ اور چین جیسے دوست ممالک سے بھی کوئی امداد یا ریلیف نہیں مل پایا۔ وزیر خارجہ کی امریکہ میں امداد بحال کرنے کی درخواست کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے رد کیا جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج جن شرائط پر حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے روپے کی قدر میں کمی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال میں عمران خان اور مقتدر قوتیں یہ چاہیں گی کہ کرپشن اور احتساب کے پرانے اور آزمودہ نعروں کو بیچ کر سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کر کے وقتی طور پر عوام کو نہ صرف لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے سبز باغ دکھا کر عوام کا دھیان ابتر معاشی صورتحال اور مہنگائی سے ہٹا دیا جائے بلکہ اپنے مریدین سے داد و تحسین کے ڈونگرے بھی سمیٹے جائیں۔
کٹھ پتلی حکومت کبھی بھی طویل المدت سیاسی سوچ نہیں رکھتی
ایک کٹھ پتلی حکومت اور ایک جمہوری حکومت میں یہی فرق ہوتا ہے۔ کٹھ پتلی حکومت کبھی بھی طویل المدت سیاسی سوچ نہیں رکھتی اور نہ ہی اسے دنیا بھر میں اپنے غیر جمہوری فیصلوں کے باعث ہونے والی سبکی کی پرواہ ہوتی ہے۔ چونکہ کٹھ پتلی حکومت کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو اسے دوبارہ اقتدار میں آنا نصیب ہوگا اور نہ ہی مقتدر قوتوں کے اشاروں پر ناچے بنا وہ اقتدار کے ایوانوں میں زیادہ سمے نکال پائے گی۔ اگر ملک میں تحریک انصاف کی کٹھ پتلی حکومت کی جگہ کوئی جمہوری حکومت موجود ہوتی تو وہ ہرگز بھی اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہ بناتی اور نہ ہی کرپشن اور احتساب کے پرفریب نعروں کو جواز بنا کر وقت کا زیاں کرتی۔
ہم اس وقت غیر اعلانیہ طور پر ایک پانچویں مارشل لا کا شکار ہیں
اس وقت وطن عزیز میں جہاں سیاسی مخالفین، بالخصوص مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی، کو سنگل آؤٹ کر کے بے رحمانہ انداز میں من پسند احتساب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جس طریقے سے آزادی اظہار پر قدغنیں لاگو کرتے ہوئے میڈیا کو سینسرشپ کا نشانہ بنایا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس وقت غیر اعلانیہ طور پر ایک پانچویں مارشل لا کا شکار ہیں اور تحریک انصاف کی کٹھ پتلی حکومت اس غیر اعلانیہ مارشل لا کا سیاسی چہرہ ہے۔ ضیاالحق اور مشرف کے مارشل لاؤں اور سیاسی انجینئرنگ کی قیمت ہم آج تک کمزور معیشت، غیر مستحکم جمہوری نظام، بد امنی اور شدت پسندی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں جبکہ اس نئے قسم کے مارشل لا کی قیمت اور اس کا تاوان ہمارے آنے والے بچے ادا کریں گے۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔