محرم ایک تہوار، کربلا ایک افسانہ

محرم ایک تہوار، کربلا ایک افسانہ
کچھ چیزیں کبھی بدلتی نہیں ہیں۔ اگر کچھ بدلتا ہے تو زیادہ سے زیادہ انہیں انجام دینے کا یا انکے وقوع پذیر ہونے کا طریقہ۔ جیسے محرم الحرام کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کو ہمیشہ سوگ میں ڈوبا پایا۔ اس ماہ میں کوئی خوشی نہیں منائی جاتی، شادیاں نہیں کی جاتیں، ہلہ گلہ نہیں کیا جاتا غرض کوئی ایسا کام نہیں جاتا جس میں شادمانی کا عنصر ہو۔


ہر حساس شخص، خواہ وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو، وہ اس مہینے کو آل رسولﷺ کی شجاعت اور استقامت کے اثر گذارتا ہے۔ کربلا کے پیاسوں کی یاد میں سبیلیں اس جذبےسےلگائی جاتی ہیں کہ کوئی شخص دوبارہ پانی کو نہ تڑپے۔ عباس علمدارؓ سے اظہار محبت اور یکجہتی کے لیے علم بنائے جاتے ہیں۔ مطلب یوں کہہ لیں کہ محرم اہل بیت کا مہینہ ہے تو شاید غلط نہ ہو۔

مگر، کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں۔ جیسے کہ ہماری روش۔ ہم اولادِ نبیﷺ کے ساتھ محبت کا اظہار تو کردیتے ہیں، مگر جو سبق وہ پڑھا گئے، اسے ہمیشہ دور ہی سے سلام کرتے ہیں۔


محرم کا سوگ مناتے کتنا عرصہ بیت گیا مگر نہ تو زندگی علیؓ والی ہوئی نہ بندگی حسینؓ والی۔جناب حسینؓ نے گردن کا سودا تو کردیا مگر زہر ہلاہل کو قند نہ کہا۔ لیکن کیا ہم اپنے اندر ایسا جذبہ پیدا کر پائے کہ باطل کو باطل اور حق کو حق کہہ سکیں؟

نبیﷺ کی آل نے پیاس تو برداشت کرلی مگر ضمیر کا سودا کر کے خود کو سیراب نہ کیا۔ مگر ہم نے کربلا سے کیا سیکھا؟ کیا ہم نے اپنے ایمان کو برائے فروخت سے برائے خدا کردیا؟


کربلا میں حق نے ثابت کیا تھا کہ وہ بظاہر تو مٹ سکتا ہے مگر در حقیقت وہ زندہ رہتا ہے۔ لیکن کیا ہم تھوڑی دیر کی لذت اور عارضی نفع کے لیے حق سے دستبردار نہیں ہو جاتے؟دل، غم حسین کا مسکن ہو تو اچھا ہے۔ ہم نے اسکو مدفن بنا دیا۔ کہیں کالا رنگ سوگ کے اظہار کے بجائے ہمارے کرتوتوں کا ترجمان تو نہیں؟


کیا سبیلیں بنا کر ہم خود کو یا خدا کو یہ دھوکا دے سکتے ہیں کہ, یا خدا ہم پورا سال دوسروں کی زندگیاں حرام کرنے والے، کسی کو دو بوند نہ پلانے والے لوگ ہیں. لیکن اس ایک مہینے کی سبیل کے توسط سے تو ہمارے پچھلے اور آئندہ جو ہم نے کرنے ہیں، وہ تمام گناہ معاف فرما دے۔


 ہم کیوں ہر کام میں سہولت تلاش کرتے ہیں؟ کالا رنگ پہننا، دیگیں چڑھانا، علم بنانا وغیرہ, کیا ہم صرف اس لیے تو نہیں کرتے کہ یہ سب سے آسان کام ہیں؟جس دین کی سرفرازی کے لیے کربلا میں شہادت کو بھی حیران کردیا گیا۔ اسی دین کے مطابق، کوئی اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہ ہو۔ اسی دین سے لگائو کا اظہار کرنے اور اسی کربلا کے غم کو تازہ کرنے کے لیے کتنا شور شرابا کیا جاتا ہے، سڑکوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ کیا ہماری محبت جانے انجانے میں الفت کے منافی تو نہیں ہوگئی؟


ہم کیوں نہ ایسا کریں کہ، سبیل لگائیں یا نہ لگائیں، علم بنائیں یا نہ بنائیں مگر ان ہاتھوں کے خلاف کھڑے ہوں جو دوسروں کو پیاسا رکھتے ہیں۔ لوگوں سے انکی زندگیاں چھینتے ہیں۔ کیوں نہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہماری اپنی اور دوسروں کی ماں بہن اور بیٹیوں کے سر پر حفاظت کا علم لہراتا رہے۔ کیوں نہ اپنی اولاد کو ناجائز آمدنی کے بجائے حلال رزق کی لذت سے آشنا کریں۔ کیوں نہ ہم باطل کی رونق سے محظوظ اور مرعوب ہونے کے بجائے حق کی ٹمٹماتی لو کو بجھنے سے بچائیں۔


لیکن اگر ہم نے محرم سے کچھ نہیں سیکھنا تو پھر کیوں نہ اسے ایک تہوار اور کربلا کو ایک افسانہ قرار دے دیں؟


کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔