وہ وقت کربلا میں ڈری نہیں تھی آمروں سے

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ذکر کے بغیر دنیا کی سیاسی تاریخ ادھوری ہے۔ بی بی نے اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے کو پرچم بنایا، بے شمار مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں مگر پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا۔

انہوں نے ایک ایسے بے رحم ٹولے سے مزاحمت کی جو اقتدار کی خاطر تمام حدود پار کرنے کے لیے تیار تھا۔ اگرچہ یہ ٹولا ان کے والد کے احسانات میں پاؤں سے لے کر سر تک ڈوبا ہوا تھا مگر اقتدار کی خاطر دھرتی سے دغا کرنے کے لیے بھی راضی تھا۔

ایک بیٹی کے ناتے والد سے محبت کا رشتہ اپنی جگہ مگر ذوالفقار علی بھٹو کا جیل کی کال کوٹھڑی سے لکھا ہوا خط بینظیر کے لئے مشعل راہ بن گیا۔ انہوں نے زندانوں کو اپنا گھر بنا لیا۔

آمریت وحشت کی علامت ہوتی ہے، آمر اپنے غیر اخلاقی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ملک کو جیتے جاگتے انسانوں کا قبرستان بنا دیتے ہیں، اس خاموشی کو بھٹو شہید کی بیٹی نے توڑا۔ وہ جمہوریت کی علامت بن کر سامنے آئی تو انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہا کہ:

ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو خاموش کرنے کے لئے فوجی آمروں نے شہر، شہر میں پھانسی گھاٹ بنائے، جیالوں کو پھانسیاں دیتے رہے، ان کی پیٹھوں پر کوڑے برساتے رہے، تشدد گاہ بنائے گئے۔ جیالوں کے ناخون کھینچ کر اور ان کی چمڑیاں ادھیڑ کر درندگی کی انتہا کی گٸی۔ مگر، سولی پر جھولنے والے اور کوڑے کھانے والے کی زبان پر جیے بھٹو کا نعرہ رہا۔

شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی بہادری نے دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ بخشا، یہاں تک کہ ہیلری کلنٹن کے مطابق انہوں نے واشنگٹن میں اپنے شوہر کلنٹن اور ننھی بیٹی کے ساتھ سڑک کے کنارے پر کھڑے ہو کر محترمہ بینظیر بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے کئی پہر انتظار کیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی مہذب قوموں کیلئے محترمہ بینظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے بے مثال جدوجہد ناقابل فراموش کارنامہ تھا۔ بھٹوز کا یہ ہی تو اعزاز ہے کہ وقت کی رفتار سے آگے نکل جاتے ہیں۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے ان کے مدمقابل ان کے شایان شان نہیں آئے، سب کے سب انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے بے چین رہے۔ قائد عوام بھٹو ہوں یا محترمہ بینظیر بھٹو شہید دونوں کے خلاف عدلیہ کا وحشیانہ استعمال ہوا، ایک آمر ٹولے کے ہاتھوں قتل ہوا دوسرا آمروں کے پالے ہوئے غنڈوں کے ہاتھوں۔

شہید بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے کچلے ہوئے اور کمزور طبقات کی بات کی۔ وطن پرستی اور استحصال کے شکار طبقات کی حمایت ان کا ناقابل معافی جرم بن گیا۔ بی بی شہید 18 اکتوبر کو وطن کی دھرتی کی پکار پر واپس آئیں، جب اعلیٰ عدلیہ کے جج قید تھے، سوات سے قومی پرچم اتار دیا گیا تھا، وزیرستان سے لے کر کراچی اور بولان تک بارود کی آگ تھی جس کے شعلوں کی لپیٹ میں پنڈی اور اسلام آباد جل رہے تھے۔

شہید بی بی اس آگ کو بھڑکانے والوں سے مزاحمت کرنے واپس آئی تھیں۔ دردناک بات یہ ہے انہیں کھوسہ ہاؤس لاہور اور زرداری ہاؤس اسلام آباد سے باہر نکلنے سے روکنے کے لیے ہزاروں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تو دستیاب تھے مگر ان کی حفاظت کے لیے ایک درجن محافظ بھی نہیں دیے گئے۔ کیونکہ ایک آمر پرویزمشرف کے اقتدار کو خطرہ تھا۔

27 دسمبر کو جمہوریت کی علامت اور عوام کی مقبول رہنما کو عوام کی نظروں کے سامنے سرعام قتل کیا گیا۔ جائے قتل کو بلا تاخیر دھو کر ثبوت ختم کر دیے گئے۔ سچ یہ ہے کہ وہ تنہا تھی سامنے اقتدر پرست پرویز مشرف اور شدت پسند تھے۔ دونوں کو عوام کی مقبول رہنما سے خطرہ تھا، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے عوام کے سامنے عوام کے لئے اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کیا کہ عوام کا رہنما کیسے عوام کے لئے جان دیتا ہے۔

مورخ کہہ رہے ہیں کہ وہ وقت کربلا میں بھی ڈری نہیں تھی آمروں سے۔ آج ان کا مزار ان انسانوں سے آباد ہے جو سرگوشی کر کے اپنے دکھڑے بیان کرتے ہیں، اور جمہوریت پسند بھی نذرانہ عقیدت پیش کرنے حاضر ہوتے ہیں، جن کے ہاتھوں پھول اور آنکھوں میں آنسوؤں کا خراج ہوتا ہے۔