Get Alerts

آنکھیں نئی لے آئی ہوں، میں کربلا سے آئی ہوں

آنکھیں نئی لے آئی ہوں، میں کربلا سے آئی ہوں
میں اس وقت کربلا معلی میں ہوٹل دُر قصر الخادمیہ کے ڈائنگ روم میں موجود ہوں۔ یہ ایک بہت کشادہ ڈائنگ روم ہے۔ ہمیں نجف سے کربلا آئے ہوئے ایک دن گزرا ہے اور ہم صبح کے ناشتے کے لئے یہاں موجود ہیں۔ عراق میں پاکستانی ناشتہ ملنا تھوڑا مشکل کام ہے کیونکہ عراقی لوگ ناشتے میں بالائی، پنیر، دہی اور روٹی کھانا پسند کرتے ہیں، ہماری طرح فرائی انڈے اور آملیٹ تناول نہیں کرتے۔ لیکن ہماری خوش نصیبی یہ ہوئی کہ جب ہم اس ڈائنگ روم سے متصل ایک کچن جہاں تازہ روٹی لگ رہی تھی، گئے تو مُجھے ایک چولہے پر ایک شربتی آنکھوں والا آدمی نظر آیا جو کسی پاکستانی سے اردو میں بات کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ جلدی جلدی آملیٹ کو فرائنگ پین میں پلٹ رہا تھا۔ میں ایک عدد تازہ روٹی اُٹھا کر چولہے کے قریب پہنچی اور سلام کیا۔ جواب ملنے پر میں نے اردو میں ہی آملیٹ کے بارے میں پوچھا تو اُن صاحب نے فوراً کہا ’’جی باجی کیوں نہیں ملے گا۔ آپ پاکستان سے ہیں؟‘‘

میں: جی پاکستان سے ہیں لیکن ہم کینیڈا سے آئے ہیں

وہ: باجی اتنی دور سے آئی ہیں؟

میں: جی

وہ: باجی اس ہوٹل میں تمام کام کرنے والے کوہاٹی ہیں۔ آپ کو کوئی بھی کام ہو، آپ ہم میں سے کسی کو بھی کہہ دیے گا۔ اپنا ہی ملک سمجھیں۔



یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی آملیٹ بنانے لگا۔ ناشتہ لے کر میں اپنی میز پر آ کر بیٹھ گئی۔ اتنی دیر میں دو لڑکے جلدی جلدی اُن میزوں کو صاف کرنے لگے جہاں سے زائرین اُٹھ کر جا چکے تھے۔ وہ سب لڑکے کوہاٹی تھے۔ اُنہیں دیکھ کر اپنائیت کا احساس ہوا اور یہ خیال بھی دل میں آیا کہ ناجانے کس مجبوری کی وجہ سے وہ یہاں آ کر کام کر رہے ہیں۔ میرے شوہر سےگفتگو کے درمیان ایک لڑکے نے بتایا کہ مہینے کا ایک لاکھ پاکستانی کما لیتا ہے، اور کربلا میں رہنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ ظاہر ہے پاکستان میں اب بھی ماہانہ ایک لاکھ روپے کی مزدوری تو کسی کو نصیب نہیں ہے۔ ہم جتنے دن بھی الخادمیہ میں رُکے اُن کوہاٹی بھائیوں نے ہماری خوب خدمت کی۔ ایک اُن کی وجہ سے اور پھر کربلا جا کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ کسی دوسرے ملک میں ہیں۔

کربلا کی فضا میں ایک عجیب سا احساس ہے جو دل کو بوجھل بھی کرتا ہےاور ہلکا بھی۔ اپنا بھی بناتا ہے اور غریب بھی۔ انسان کو احساس ہوتا تو بس کم مائیگی کا۔

کینیڈا سے پہلی ستمبر کو ٹورونٹو سے روانگی ہوئی اور دو تین دن دبئی میں اپنے بھائی کے پاس رکنے کے بعد ہم پانچ ستمبر کو نجف الاشرف پہنچے۔ نجف کربلا سے قدرِ مُختلف شہر ہے۔ شاہراہیں بڑی بڑی ہیں اور فضا بھی الگ طور کی ہے۔ نجف میں ہمارا قافلہ ہوٹل قصرِ دُر میں ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ نجف کے بہترین ہوٹلوں میں سے ایک ہے۔ وہیں ہم اپنے قافلے کے دوسرے ممبران سے ملے جو نیو جرزی سے آئے تھے۔ ہمارا کمرہ نویں فلور پر تھا جہاں سے پورا شہر صاف دکھائی دیتا ہے۔ سامان رکھ کر ہم فوراً ہی امام علیؑ کے روضے کے لئے روانہ ہوئے جو کہ ہوٹل سے کُچھ قدم کے فاصلے پر تھا۔



ٹی وی پر بہت بار امام علیؑ کا روضہ دیکھا ہوا ہے لیکن آج پہلی بار میں اپنی آنکھوں سے روضہ دیکھنے جا رہی تھی۔ دل میں یہ احساس بھی تھا کہ کیا میں اتنی بڑی زیارت کی اہل ہوں؟ روضے کی طرف بڑھتے ہوئے قدم میری نبض کو بھی تیز کیے دے رہے تھے۔ روضے کی سامنے پہنچی تو آنکھوں کی پتلی دو گز میں پھیل گئی۔ صدر دروازے کےسامنے جیسے میں بالکل بُت بن کر کھڑی تھی، سوچا کہ اندر کیسے جائوں۔ قافلے کے ساتھ جانے کے بہت سے فوائد ہیں لیکن ایک نُقصان یہ ہے کہ آپ کے پاس جذباتی ہونے کا وقت بالکل نہیں ہوتا۔ اس لئے جلدی اپنے آپ پر قابو رکھ کر خواتین کے مخصوص دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔

دروازے پر تین عدد برقع بردار خواتین نے تلاشی لی، بیگ چیک کیا اور خوش نصیبی سے موبائل لے جانے دیا۔ روضے میں آپ بغیر زیارت اذنِ دخول پڑھے نہیں داخل ہو سکتے۔ زیارت پڑھی اور صدر دروازے کے چوکھٹ کو چوما، مولا کا سلام کیا تو دل جیسے حلق میں آ گیا۔ وہ کوئی عام چوکھٹ نہیں تھی، وہ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب کی چوکھٹ تھی، وہ فاتح خیبر کا در تھا، وہ اُس عظیم جنگجو کا روضہ تھا جو جنگوں میں دشمنوں کے پرخچے اڑا دیتا تھا، جو مرہب و انتر کو واصل بجہنم کرنے والا تھا۔ وہ علیؑ جو مولود کعبہ ہے، وہ علیؑ جو قسیم نار والجنہ ہے، وہ علیؑ جو دوشِ رسول کا سوار ہے۔ میں ان تمام احساسات کے ساتھ کس طرح وہاں کھڑی تھی بیان کرنے کی کوشش ہی کی جا سکتی ہے۔ بہت بھاری قدموں سے زریح کی طرف بڑھنے لگی مگر دیوار پکڑ کر بیٹھ گئی، میرے بچے بھی میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ اُن کو کُچھ اندازہ تو تھا کہ مُجھ پر کیا کیفیت طاری ہے۔ دل کی بھڑاس نکلی، کُچھ دل ہلکا ہوا تو سنبھل کر کھڑی ہوئی، حجاب درست کیا اور زریح کی طرف چل پڑی۔

عام طور پر زریح کو ہاتھ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن شاید شاہ مرداں کو مُجھ پر رحم آ گیا۔ زیارت کی اپنی اور دوسروں کی حاجات طلب کیں اور جلدی وہاں سے واپسی کے لئے نکل گئی۔ بیٹھنا اتنا مشکل تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ صحن میں دو رکعات نماز پڑھی اور پھر ظہر عصر۔ اس طرح لافتاح سے پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ سفر نامہ لکھنا میرے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا آپ کے لئے پڑھنا۔



نجف تاریخی لحاظ سے بہت ہی اہم شہر ہے۔ امام علیؑ کے ہی روضے میں حضرت نوحؑ اور حضرت آدمؑ کی بھی قبریں ہیں۔ اس کے علاوہ روزہ امام علی سے کُچھ قدم دور وادی سلام نام کا قبرستان موجود ہے جہاں حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کی قبر ہے۔ اس کے علاوہ وادی سلام میں ستر ہزار پیغمبر دفن ہیں۔ اس قبرستان کی تاریخ کُچھ یوں ہے کہ نجف کے لوگوں کو پہلے تو امام علیؑ کی قبر کا علم نہیں تھا لیکن جب اُن کو علم ہوا تو اُنہوں نے اپنے مرحومین کو امام علیؑ کی قبر کے قریب دفنانا شروع کر دیا۔ ہوتا یہ تھا کہ نجفی لوگ جن کے گھر امام علیؑ کی قبر کے قریب تھے، اپنے گھروں کے اندر ہی اپنے مرحومین کو دفنا دیا کرتے تھے، اس لئے اس قبرستان کا کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں تھا۔ بعد ازاں اُن گھروں کو گرا کر ایک بڑا احاطہ بنایا گیا اور قبرستان کو باقاعدہ وادی سلام کا نام دیا گیا۔ ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ یہاں دفن ہو۔ اب یہ حال ہے کہ قبرستان میں جگہ بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس قبرستان کا ایک معجزہ یہ ہے کہ بارش کا جو پانی وادی سلام میں گرتا ہے وہ پتھر بن جاتا ہے جسے دُرِ نجف کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ دُرِ نجف پہننے کا بے حد ثواب ہے۔



ایک حدیث کے مطابق مرنے کے بعد مؤمنین کی ارواح وادی سلام نامی ایک مقام پر جمع ہو جائیں گی۔ اس وجہ سے لوگ کوشش کرتے تھے کہ اپنے مرحومین کو یہاں دفنائیں اور جو نہیں دفن ہو سکے اُن کے لئے تاکید ہے کہ وہ اپنا نام خاک پر لکھ دیں۔ وہاں کے لوگوں کے مطابق یہ اُن کی قبر کا نشان ہو گا۔ نجف کا شہر عجیب اسرار و رموز کا مرکز ہے۔ یہیں وہ کنواں بھی ہے جہاں سے طوفانِ نوح کا آغاز ہوا تھا۔

اگلے دن نجف سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔ مسجدِ کوفہ کی زیارت کو گئے تو وہاں ایک مُختلف رواحانی احساس ہوا۔ یہاں صحن میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ کا مصلہ ہے جہاں اُنہوں نے نماز پڑھی۔ کہتے ہیں کہ کوئی نبیؑ ایسے نہیں گزرے جنہوں نے مسجد کوفہ میں نماز نہ پڑھی ہو۔ مسجدِ کوفہ ایک انتہائی خوبصورت مسجد ہے، بڑے بڑے ستون بالکل مسجدِ نبویؐ سے مشابہ ہیں۔ مسجد کو روشن کرنے کے لئے فانوس نصب کیے گئے ہیں جن کی بناوٹ آج بھی پرانے دور جیسی ہی ہے۔ لیکن اُن کو آگ کی بجائے بجلی کے بلب روشن کرتے ہیں۔

اسی مسجد کے ساتھ ہی امام علیؑ کا گھر ہے جہاں اب بھی وہ کنواں اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جہاں سے امام علی کے گھر کے لئے پانی حاصل کیا جاتا تھا۔ ہم نے بھی اُس کنویں سے پانی بھرا اورتبرک کے طور پر رکھ لیا۔ موسم کا حال یہ تھا کہ ہمارے چہرے جھلس چکے تھے لیکن دل روحانیت سے روشن ہو گیا تھا۔ میں تو خیر ملتان سے تعلق رکھتی ہوں لیکن میرے بچوں کے لئے یہ موسم نا قابلِ یقین حد تک گرم تھا۔ مسجدِ کوفہ ہی میں حانی ابنِ عروہ اور مُختارِ سقفی کی بھی قبریں ہیں جو کہ امام علیؑ کے خاص اصحاب میں سے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت مسلم ابنِ عقیل جو کہ امام حسینؑ کے چچا زاد بھائی بھی تھے اور بہونی بھی، اُن کی قبر بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔



مسجدِ کوفہ کی پیچھے ہی قصرِ دار الامارہ ہے جہاں بنو امیہ کے دورِ حکومت میں ابنِ زیاد کوفہ کے گورنر کی حیثیت سے تخت نشین ہوا کرتا تھا۔ ابنِ زیاد کے ہی حکم پر مسلم ابنِ عقیل کو سزائے موت دی گئی اور دارالامارہ کی چھت سے گرا کر شہید کیا گیا۔ مسلم ابنِ عقیل کو حانی ابنِ عروہ نے کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ مُسلم اپنا لشکر لے کر کوفہ پہنچے تو کوفی یزید کے خوف سے امام حسینؑ کو لکھے ہوئے خطوں سے انکاری ہو چکے تھے اور اب مسلم کو بھی اکیلا کرنے پر تلے تھے۔ جس کی وجہ سے مسلم ابن زیاد کی فوج کے ہاتھوں گفتار ہو گئے۔ واقع کربلا کے بعد جب مُختارِ سقفی نے قاتلانِ حسینؑ سے جنگ کی تو ابنِ زیاد کا تختہ اُلٹ گیا اورمُختار اسی دارالامارہ میں تخت نشین ہوئے۔ بعد ازاں مُختار کی حکومت کا تختہ مسعب ابنِ زبیر نے اُلٹا اور اسی قصر میں زبیریوں کی حکومت قائم ہوئی۔

مسجدِ کوفہ کے قریب ہی حضرت میثم تمار کا روضہ بھی ہے۔ میثم تمار امام علی کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ میثم تمار کا روضہ بھی انتہائی شان و شوکت سے تعمیر کیا گیا ہے۔ خطِ کوفی ہر جگہ جلوہ گر ہے۔

کوفہ کے اطراف کی زیارات میں حضرت مسلم ابنِ عقیل کے کم عمر بیٹوں ابراہیم اور محمد کی قبریں ہیں جو ایک عالی شان روضے میں واقع ہیں۔ یہ زیارت ہر ایک کے لئے انتہائی دل خراش ہے۔ روایت کے مطابق مُسلم ابنِ عقیل کی شہادت کے بعد اُن کے انتہائی کم عمر بیٹے کوفہ بھر میں چھپتے پھرے لیکن اخیر اپنے قاتل کے ہی گھر میں انہیں پناہ ملی جِس نے بے دردی سے گلا کاٹ کر دونوں بچّوں کو شہید کیا اور حکومتِ وقت سے بھاری انعام وصول کیا۔ روضے کے اندر داخل ہوئی تو دو ننھی قبریں نظر آئیں۔ قبروں کے ساتھ ہی پاکستان سے آئی ہوئی خواتین زمین پر بیٹھی تھیں جن میں سے ایک خاتون بینیہ انداز میں سرائیکی میں مجلس پڑھ رہی تھیں۔ کُچھ دیر مجلس سنی، پرسہ دیا اور باہر آ گئی۔ اس زیارت کے باہر ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں سے زائر تبرکات کی خریداری کرتے ہیں۔



اب کوفہ سے اپنی آخری منزل کی طرف روانگی تھی۔ ہم کربلا کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ امام علیؑ کے روضے پر آخری بار سلام کیا تو بچوں کی طرح رونا آ گیا۔ بالکل ویسی ہی کیفیت دل کی ہو گئی جب پاکستان سے آخری بار رخصت ہوئی تھی لیکن یہ سفر کربلا کا سفر تھا۔ خوشی اور غم کا عجیب احساس گھیرے ہوئے تھا۔ سفر کُچھ لمبا تھا رستے میں آنکھ لگ گئی، کھلی تو ہم کربلا میں تھے۔ کانوں میں آواز تو آئی مگر یقین نہیں آیا۔ قافلہ سالار کو بھی زائر کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ویگن رُکتے ہی سامان دُر قصر ہوٹل الخادمیہ کی لوبی میں چھوڑا اور سرپٹ امامِ عالی مقام کے روضے کی طرف دوڑے۔

یوں لگ رہا تھا جیسے میں اپنی بچھڑی ہوئی ماں سے ملنے جا رہی ہوں۔ بس بھاگ کر جانے کی کثر اور رہ گئی تھی۔ روضے پر پہلی نظر پڑی تو دھڑکن جیسے رُک گئی ایک لمحے کو۔ قافلے والوں کے سامنے انسان کیسے اپنے جذبات کو قابو کرے۔ کیسے چیخ چیخ کر اپنے آقا کو سلام کرے۔ ایسے میں خیال اُن زائروں کا آیا جو مسجدِ نبویؐ کی زیارت کو جاتے ہیں اور وہاں زور زور سے رونے اور سلام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

میں نے نظر گھما کر اپنے بچوں کو دیکھا تو اُن کی آنکھیں چمک رہی تھیں، جو آنکھ تھی پُر نم تھی۔ ہم یعنی کہ عین اُس جگہ موجود تھے جہاں جنگِ کربلا ہوئی تھی، جہاں علی اصغر سے شش ماہے کو تیر سے سلایا گیا تھا، جہاں اٹھارہ سال کے علی اکبر کے سینے میں برچھی لگی تھی، جہاں شامِ غریباں میں سکینہ بنت الحسینؑ کےگوشوارے چھینے گئے تھے، جہاں امامِ حسینؑ کا سَر تن سے جدا کر کے نیزے پر بلند کیا گیا تھا۔ جہاں زینبؑ کی چادر چھنی تھی۔ جہاں قاسم کی نعش گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوئی تھی جہاں عباس جیسے شیر دلاور کو موت کی نیند سلایا گیا۔ غم کی کیفیت کو محسوس کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ پل بھر کو لگا کہ شاید دل سہہ نہیں پائے گا مگر ہم اتنے کہاں خوش قسمت کہ کربلا جا کر جان ہی دے دیں۔



امام حسینؑ کے روضے سے حضرت عباسؑ کے روضے کی طرف چل پڑے جو بس کُچھ قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت عباسؑ دریائے فرات کے کنارے شہید ہوئے۔ امام حسینؑ اور غازی عباسؑ کے روضے کے درمیان ایک بہت بڑا صحن تعمیر کیا گیا ہے جسے ’بین الحرمین‘ کہا جاتا ہے۔ اس صحن سے دونوں روضے ایک ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔ حضرت عباسؑ کی اصلی قبر سرداب میں موجود ہے اور اُن کی قبر کا معجزہ یہ ہے کہ پانی ہر وقت اُن کی قبر کا طواف کرتا رہتا ہے۔

بقول شاعر:

پیاس صحرا کو لگی تشنہ لبی سے جس کی
رشکِ عباسؑ تو کوثر سے بھی دیکھا نہ گیا
رُخ کو یوں موڑ لیا شرم سے پھر دریا نے
جُز قدم بوسیِ عباسؑ کہیں دیکھا نہ گیا

غازی کو سلام کیا اور ہوٹل پہنچے۔ کُچھ دیر میں کھانے کا وقت ہو گیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر کُچھ دیر آرام کیا۔ بچے بہت تھک چکے تھے لیکن پُر جوش تھے۔ میں نے کئی ہفتے پہلے سے اُن کی ہمت بندھائی ہوئی تھی اس لئے انہیں معلوم تھا کہ یہ سفر آسان نہیں ہو گا۔ بھلا جس سفر میں اولادِ رسولؐ پر اتنی مصیبتیں ٹوٹی ہوں وہاں ہماری تکلیف کی کیا اہمیت تھی لیکن کہتے ہیں کہ امام حسینؑ ایک ایک زائر کو اُس کے نام سے جانتے ہیں اور قیامت کے دن زائرِ حسینؑ کی خاص شفاعت کریں گے۔

شام ہوئی تو ہم روضہ امام حسینؑ پر پہنچے۔ دروازے پر تلاشی دی، فون امانت رکھوایا، ٹوکن لیا، جوتے الگ جگہ جمع کروائے اور اُس کا بھی ٹوکن لیا۔ امام حسینؑ کے روضے کے چاروں اطراف برآمدے ہیں جہاں زائرین اپنا قیمتی سے قیمتی سامان بھی بے فکر ہو کر امانت کے طور پر رکھوا سکتے ہیں۔ ہم نے بھی سب جمع کروایا۔ عراق جا کر ایک احساس ہوا کہ عراقی لوگ پاکستانی زائرین کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارا گندمی رنگ جو کہ دھوپ کی وجہ سے اور بھی سیاہی مائل ہو چکا تھا، کو دیکھ کر اکثر عراقی خواتین یہی سوال پوچھتی تھیں، 'ہندی؟' 'باکستانی؟'۔ ہم خوشی سے اپنے دیس کا نام بتاتے تھے۔ یہ احساس ایران میں نہیں ہوا جہاں میں 2011 میں مشہد اور قُم کی زیارت کے لئے گئی تھی۔



امام حسینؑ کے روضے میں داخل ہونے کے لئے کئی دروازے ہیں۔ ہم بابِ صاحب الزمان سے داخل ہوئے۔ اندر داخل ہوئی تو میرے مولا کا روضہ میرے سامنے تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ میں سید الشہدا کے در پر کھڑی تھی۔ اسی روضے میں امامؑ کے دونوں فرزند علی اکبر اور علی اصغر بھی مدفون ہیں۔

دل درد سے بوجھل ہو گیا۔ مولا نے جیسے تسلی دی تو در پر بوسہ دیا اپنے پیاروں کے نام انگلی سے لکھے، یہ وہاں کی روایت ہے۔ دروازہ بے پناہ سونے سے بنایا گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں دروازے پر ہی کھڑی رہی۔ صحن میں پہنچی تو وہاں مولانا ظہیر الحسن قبلہ منبر پر بیٹھے مجلس پڑھ رہے تھے اور کوئی سات آٹھ سو پاکستانی زائرین قالینوں پر بیٹھے مولانا کی مجلس سُن رہے تھے۔ میں پہلے زریح کی طرف بڑھی کہ زیارت کر لوں۔ امام حسینؑ کے روضے میں ناجانے مُجھ پر وہ خوف طاری نہیں ہوا جو امام علیؑ کے روضے پر محسوس ہوا۔

زریح کی زیارت کی، مولا کا شکریہ ادا کیا کہ مُجھ جیسی کو یہ شرف بخشا۔ میرا وٹس ایپ اور ٹویٹر لوگوں کے سلام اور دعائوں سے بھرا پڑا تھا۔ جن جن کے نام یاد آئے سب کا سلام دیا اور جن کے نہیں آئے ان کی طرف سے بھی۔ یقیناً شہید زندہ ہے اور سلام کا جواب بھی دیتا ہے۔

بہت دیر وہاں کھڑی رہی۔ چاروں جانب مُختلف مُلکوں سے آئی ہوئی خواتین اپنی اپنی زبان میں امام حسینؑ سے محوِ گفتگو تھیں۔ ہر ایک کی آنکھ پُرنم تھی۔ ہر ایک اس کوشش میں تھا کہ خود کو امام حسینؑ کی زریح سے مس کر لے۔ رش بہت تھا، مشکل سے باہر نکلی۔ کُچھ دیر مجلس سنی۔ امام حسینؑ کی زریح کے باہر ہی حبیب ابنِ مظاہر کی قبر ہے۔ شہید کو سلام کیا۔ پھر پرسہ دے کر بابِ صاحب الزمان سے ہی مولا سے رخصت لی۔ باہر نکل کر اپنا سامان واپس لیا اور غازی کے روضے کے جانب روانگی کا قصد کیا مگر اُس دن رش کی زیادتی کے باعث حضرت عباس کے روضے میں داخل تک نہ ہو سکے اور واپسی کا رستہ لیا۔



صبح اُٹھے ہوٹل میں ناشتہ کیا اور سامرّہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ اگر آپ گاڑی یا بس سے سفر کر رہے ہیں تو سامرّہ نجف سے تین گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ سامرّہ اور کاظمین کی زیارات کسی حد تک خطرناک ہیں کیونکہ ایک تو یہ علاقہ ایک وقت میں پوری طرح داعش کے قبضے میں آ چکا تھا۔ دوسرا داعش ابھی بھی یہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے اس لئے سکیورٹی تھریٹ اب بھی موجود ہے۔ اس کے تدارک کے لئے سامرّہ اور کاظمین میں تلاشی قدرِ سخت ہوتی ہے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹ بنی ہوئی ہیں ایک جگہ ہمیں اپنے پاس پورٹ بھی دکھانے پڑے۔ خیر لمبا سفر کر کے ہم سامّرہ پہنچ ہی گئے۔ سامرّہ میں امام حسن عسکریؑ اور امام علی نقیؑ کی قبریں ہیں۔

امام علی نقیؑ میرے جد بھی ہیں اِس لئے مُجھے اُن کے روضے پر ایک پُرمسرت احساس ہوا۔ امام علی نقیؑ کے روضے کی چھت انتہائی خوبصورتی سے بنائی گئی ہے۔ نقاشی اور شیشے کا استعمال بہت عمدہ انداز میں کیا گیا ہے۔ برآمدے بے حد کشادہ اور ہوادار ہیں۔ ایک گنبد ابھی زیر تعمیر ہے۔ داعش کی حکومت کے دور میں امام کے روضے کو گولہ باری سے بری طرح نقصاں پہنچایا گیا تھا لیکن اب دوبارہ سے گنبد کی تزئین اور آرائش کا کام زور وشور سے جاری ہے۔



سامرّہ سے زیارت کر کے ہم کاظمین کے لیے روانہ ہوئے جو سامرّہ سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ کاظمین میں امام موسیٰ کاظمؑ اورامام مُحمد تقیؑ کا روضہ ہے۔ دونوں امامؑ ایک ہی روضے میں مدفون ہیں اور اِس روضے کے دو گنبد ہیں اور یہی دو گنبد ان کے روضے کو منفرد بناتے ہیں۔ کاظمین میں دو رکعات نماز ادا کی اور ظہر اور عصر کی نماز بھی یہیں ادا کی۔ گرمی شدید تھی لیکن ہر روضے میں اے سی کا مکمل انتظام ہے۔ زائرین کے لئے ٹھنڈے پانی کا بندوبست بھی اعلیٰ درجے کا موجود ہے۔

کاظمین کی زیارت مکمل کر کے ہم بلد کی طرف روانہ ہوئے جہاں حضرت سید محمدؒ کا روضہ ہے جو کہ امام حسنِ عسکریؑ کے بھائی ہیں اور فرزندِ امامِ علی نقیؑ بھی۔ اِن کا روضہ بے حد مشہور ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ یہاں بے اولاد لوگ اگر اولاد کی منّت مان کر جائیں تو ضرور پوری ہوتی ہے اور جب منّت پوری ہو جاتی ہے تو سید محمدؒ کے روضے پر دنبہ خیرات کرتے ہیں۔ ہم نے بھی اپنی تین بیٹیوں کے لئے بہت سی دعائیں مانگیں۔



کربلا کی زیارت کا ذکر حضرت حُر کا ذکر کیے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت حُر شہدا کربلا میں سے ایک ہیں اور یہ وہ خوش نصیب شہید ہیں کہ جِن کو شہادت کے بعد خود امام حسینؑ نے اپنی والدہ کا رومال ان کے سَر پر باندھا اور خُدام کے مطابق وہ رومال اب بھی حُر کی پیشانی پر بندھا ہوا ہے۔ حضرتِ حُر ابتدا سے امام حسینؑ کے ساتھیوں میں شامل نہیں تھے بلکہ دراصل یزید کی فوج میں کمانڈر کی حیثیت سے شام سے آئے تھے۔ انہوں نے ہی پہلی بار امام حسین کا قافلہ روکا اور امام حسینؑ نے حضرتِ حُر کے دستے کو پانی پلایا یہاں تک کہ گھوڑوں تک کو پانی پلایا۔ شبِ عاشور حُر پر قیامت کی طرح گزری۔ وہ اسی کشمکش میں رہے کہ امام حسینؑ سے ملنے کے بعد وہ کس طرح ایسی پُرنور شخصیت کے قتل میں شامل ہو سکتے ہیں۔ عین فجر کی نماز سے کُچھ دیر پہلے حُر امام حسینؑ کے پاس تشریف لے گئے، امام کے ہاتھ پر بیعت کی اور روزِ عاشور اس حال میں جان اپنے پروردگار کے حوالے کی کہ سَر امام حسینؑ کی گود میں تھا۔

حُر ہر انسان کو ایک انقلاب سے متعارف کرتے ہیں اور واقعہ کربلا میں حُر کا کرداد سب کو دعوت فکر دیتا ہے۔ حضرت کے جسد خاکی کو اُن کے قبیلے کے لوگ اُٹھا کر لے گئے تھے اور کربلا سے کُچھ دور اُن کا روضہ ہے جہاں لاکھوں زائرین سلام پیش کرتے ہیں۔

امام حسینؑ کی قبر کا نام مٹانے کی کوشش ہر دور میں کی گئی وہ معتصم بلا کا دور ہو، متوکل العباسی کا یا صدام حسین جیسے ظالم حکمران کا، کوئی بھی اس زیارت کو نہ روک سکا یہاں تک کہ آج کروڑوں انسان دور دراز کا سفر طے کر کے آتے ہیں اور امامؑ کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں۔ اس سفر میں ایک چیز جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھی عراقی لوگوں کی مہمان نوازی۔ ہر ایک نچھاور ہو رہا تھا۔ اس جنگ زدہ مُلک میں ہمیں اپنی غربت کا احساس شدید طور سے ہوا۔ اصل دولت تو ان غریبوں کے پاس ہے کہ کتنا ہی کوئی اہلِ ثروت ہو، اہلِ بیتؑ کے در کا گدا دکھائی دیتا ہے۔ میں نے اس سفر میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے پیر نہیں تھے مگر وہ سر پر خاک ڈالے "یا حسین" کہتے ہوئے زمین پر خود کو گھسیٹتے ہوئے آتے ہیں۔ آنکھیں نہیں ہیں مگر لاٹھی ٹیکتے ہوئے آتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی امام کے روضے تک پہنچا ہی دے گا۔ ہمارے پاس تو پرام تھی لیکن عراقی خواتین چھوٹے بچوں کو ٹوکری میں بٹھا کر ٹوکری کو رسّی سے گھسیٹتی ہوئی کربلا چلی آتی ہیں۔ یہاں ہر شخص دل کو ہتھیلی پر رکھ کر آتا ہے، یہ عشق کی منزل ہے۔ یہ وہ زمین ہے جہاں عشق نے خود کو معشوق پر ایسا قربان کیا کہ پھر اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔



یہ وہ جگہ ہے جہاں وفا عباسؑ کے قدموں کو چومتی ہے۔ میں کتنا لکھوں کہ لفظ کم پڑ رہے ہیں۔ مولا عباس کے روضے پر ناجانے کتنے معجزے ہوتے ہیں؛ کبھی کسی گویائی سے محروم کو قوتِ گویائی مل جاتی ہی کبھی کسی سماعت سے محروم کو سُننے کی صلاحیت، کبھی کوئی وہیل چیئر پر بیٹھا، دفعتاً اُٹھ کر چلنے لگتا ہے۔ سرزمینِ کربلا چلے جانا آسان ہے لیکن وہاں سے واپس آنا ناممکن ہے۔ جو زائر وہاں جاتا ہے اپنا آپ وہیں چھوڑ آتا ہے۔ وہاں ایک نئی بصیرت ملتی ہے۔ آنکھوں کو اک نیا نور نصیب ہوتا ہے۔ پھر باقی دنیا ہیچ لگنے لگتی ہے۔ پھر نہ کوئی سرزمین آنکھوں کو بھاتی ہے نہ کوئی در جس پر ماتھا ٹیکا جا سکے۔

امام کی شان میں جوش ملیح آبادی کہتے ہیں:

اے بار الہ نوحہ سناتا پھرتا
تا روزِ جزا اشک بہاتا پھرتا
امداد نہ کرتے جو ترس کھا کے حسینؑ
اسلام ترا ٹھوکریں کھاتا پھرتا

جوشؔ