1829 میں جب برطانیہ کے وزیر داخلہ سر رابرٹ پِیل دنیا کی پہلی جدید اور باقاعدہ پولیس سروس لندن میٹروپولیٹن پولیس سروس کی بنیاد رکھ رہے تھے تو ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ ایسا بنایا جائے جو ریاست سے طاقت کا مینڈیٹ پاتا ہو تاہم وہ غیر سیاسی، منظم اور ایک پیشہ ورانہ فورس کی طرح جرائم کی روک تھام اور شہریوں کے تمام تر تحفظ کے لئے کام کرے۔
یہ ایسا قدم تھا جو دنیا بھر میں منظم اور پیشہ ورانہ پولیس فورسز کی بنیاد بنا۔ لیکن تسیری دنیا کی بد قسمتی کہ ان پر جو پولیس تھوپی گئی اس کا مقصد شہریوں کی حفاظت سے زیادہ نظم و نسق برقرار رکھنا تھا اور اس کے لئے ان کو بد ترین جبر و تشدد کی بھی اجازت رہی۔ مختصراً کہا جائے تو نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ رکھنے والے قانون نافذ کرنے پر معمور ادارے پاکستان کے بھی حصے میں آئے۔ اور پولیس ایسا ادارہ تھی جس کا ہر وقت عوام سے براہ راست تعلق تھا۔ پاکستان میں بھی کچھ نہ بدلا۔ بلکہ مزید بدتر ہوا۔ ایوبی مارشل لا ہو یا بھٹو مارکہ جمہوریت سب میں پولیس کے سیاسی استعمال کے لئے علیحدہ پالیسی بنائی گئی۔
اور پھر آیا ضیاالحق کا مارشل لا جس نے پولیس کے سیاسی استعمال کو اس بلندی پر پہنچایا کہ پولیس کا ادارہ تب سے آج تک صرف پستیاں ہی دیکھ رہا ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر دور میں بھی پولیس کا سیاسی استعمال جاری رہا۔ نواز شریف صاحب کو تو پنجاب پولیس کی بربادی میں انگریز کے بعد سب سے زیادہ کریڈٹ جاتا ہے۔ ان کے دورِ حکومت میں جس طرح ان کے قریبیوں کو نوازا گیا، اس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ پرویز مشرف نے پولیس میں آ کر اصلاحات کے نام پر نئے انتظامی عہدے بنائے اور پولیس کو ضلعی انتظامیہ سے علیحدہ کر دیا لیکن بات پھر ادھر کی ادھر ہی رہی۔ اس عشرے میں ایک جانب شہباز شریف پولیس کو ٹھیک کرنے کی کوششوں کا دعویٰ کرتے رہے جس میں کچھ اہم اقدامات لیے گئے۔ اور پھر انہوں نے اعتراف کیا کہ ان سے تھانہ کلچر میں تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔ دوسری جانب خود کو قوم کا مسیحا بنا کر پیش کرنے والے آج کے وزیر اعظم عمران خان کا ہمیشہ دعویٰ رہا کہ وہ آئیں گے اور پولیس کو غیر سیاسی کر دیں گے۔
اپنے دعوے کے ساتھ ہی وہ خیبر پختونخوا پولیس کو بطور ثبوت لف کر دیتے تھے جو کہ اپنی ذات میں خود ایک متنازع معاملہ رہا۔ بہر حال عمران خان اقتدار میں آئے تو ان سے پولیس ریفامز کے حوالے سے کافی امیدیں تھیں لیکن ہوا یہ کہ پنجاب میں جس قدر اور جس بھونڈے انداز میں پولیس کے ساتھ اکھاڑ پچھاڑ ہوئی وہ آج تک کبھی نہیں دیکھی گئی۔ دو سالوں میں پنجاب میں پانچ آئی جی تبدیل ہو چکے ہیں جب کہ دو بار پورے صوبے کے افسران کو تبدیل کیا گیا۔
تازہ ترین صورتحال کے مطابق سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر اور سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے درمیان تنازع کے بعد اس آئی جی کو تبدیل کر دیا گیا جس کے معترف خود وزیر اعظم تھے۔ اب انصار عباسی نے اپنی خبر میں بتایا ہے کہ بطور سی سی پی او عمر شیخ نامی جس افسر پر وزیر اعظم نے اعتماد کا ہاتھ رکھا ہے اسے سنٹرل سلیکشن بورڈ داغدار کریئر کا مالک قرار دے چکا ہے اور اسی بنا پر وزیر اعظم عمران خان ان کی اکیسویں گریڈ میں ترقی کو روک چکے ہیں۔
ساتھ ہی نہلے پر دہلا یہ کہ ایک جونئیر آفیسر انعام غنی کو بطور آئی جی پنجاب تعینات کر دیا گیا ہے۔ جن کو لے کر ایڈیشنل آئی جی پنجاب طارق مسعود نے کام کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ جب کہ سابق آئی جیز کی تنظیم نے آئی جیز کی اس طرح سے تعیناتیوں اور معزولیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اب یہ بھی سنیے کہ نئے آئی جی پنجاب پر انسانی سمگلنگ میں ملوث رہنے کا الزام بھی لگ چکا ہے۔
جنوری 2019 میں وزارت داخلہ کو پیش کی گئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، پنجاب کے نئے پولیس چیف انعام غنی کو بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ، اسلام آباد میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کے ساتھ ملی بھگت کے لئے انسانی سمگلنگ کی سہولت فراہم کرنے کا قصوروار پایا گیا تھا۔ انسانی سمگلنگ کے رنگ کی انکوائری اس وقت کی گئی جب برطانوی ہائی کمیشن ہیتھرو ہوائی اڈے پر افغان مہاجرین کی سمگلنگ سے متعلق یہ مسئلہ 2014 میں پاکستانی حکام کے نوٹس میں لایا۔
ڈان کی جنوری 2019 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ایف آئی اے نے شکایت پر کوئی کارروائی نہ کرنے کا الزام ’اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل‘ پر لگایا تھا۔
ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تشویشناک بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اس حالیہ پولیس سرکس کی وجہ سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے تحت چلنے والے اس محکمے میں شدید اضطراب اور بے چینی ہے۔ افسران دھڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ پولیس تنظیمیں اس سب پر تقسیم ہیں۔ اور لاہور کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ن لیگ نے سی سی پی او کی تعیناتی کو تحریک انصاف کے ن لیگ مخالف ایجنڈے سے جوڑ دیا ہے۔ نئے افسران پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ سول بیوریوکریسی بقول انصار عباسی اس تمام صورتحال کو پولیس کو سیاست زدہ کرنے کی ننگی حرکت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
اور یہ کام وہ حکومت کر رہی ہے جو کہ غیر سیاسی پولیس کی دعویدار تھی۔ دباؤ، جھوٹ اور سچ کے درمیان ابہام سے لبریز اس سیاسی صف بندی سے پیدا ہونے والے اس منتشر اور بے چین ماحول کا اثر ظاہر ہے کہ پولیس کی کارکردگی پر پڑے گا۔ پولیس جو کہ پہلے ہی عوامی خدمت میں سب سے داغدار ادارہ ہے اس کی صلاحیت محکمہ جاتی خانہ جنگوں میں صرف ہونے لگی تو عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔