Get Alerts

سندھ حکومت کی جانب سے تقسیم کیا گیا امدادی سامان کم وزن اور غیر معیاری قرار

سندھ حکومت کی جانب سے تقسیم کیا گیا امدادی سامان کم وزن اور غیر معیاری قرار
سندھ حکومت کو ناقص اور وزن میں کم راشن فراہم کیا گیا ہے۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سندھ حکومت کو کنٹریکٹ کے تحت فراہم کیے گئے دس ہزار آٹھ سو راشن کے تھیلے وزن اور معیار دونوں میں ہی کم ہیں۔

بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسس کی دستاویز کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ بازار کے نرخ اور حکومت کو دیے گئے راشن کے تھیلوں کی قیمتوں میں ایک سو اناسی روپے کا فرق ہے۔ یو سی چئیرمینوں نے حیدرآباد کے چار تعلقوں میں کھانے کی اشیا تقسیم کیں جس کے بعد انتظامیہ کے ایک افسر کی جانب سے تحقیقات کی گئیں۔

ہر تعلقے کو اس کے اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے راشن فراہم کیا گیا۔ یونین کاؤنسلز میں راشن تقسیم ہونے کے فوراً بعد ہی کھانے کی چیزوں کے حوالے سے شکایات سامنے آنے لگ گئیں۔

پانچ اپریل کو راشن سے بھرے ٹرک کو دو مسلح افراد نے روکا اور اسے حسین آباد کے علاقے میں لے گئے جہاں ہجوم نے اس ٹرک کو لوٹ لیا۔ جبکہ راشن کے یہ چار سو تھیلے قاسم آباد کے اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے کیے جانے تھے۔

معیار اور وزن کی شکایات کے موصول ہونے کے بعد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر انویسٹیگیشن لیاقت کلہوڑو نے محکمہ خوراک اور بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسس کی انتظامیہ سے راشن کی جانچ کروائی۔ راشن کی جانچ، وینڈر محمود راجپوت، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر حکام کی موجودگی میں آٹھ اپریل، بدھ کے روز کی گئی۔ وینڈر کا تعلق حیدر آباد کے تاجر وں کی ایک آرگنائزیشن سے ہے۔

تحقیق کے بعد وینڈر کو حکم دیا گیا کہ وہ چند اشیا جیسے کہ دال چنا اور چاول وغیرہ کو فوراً تبدیل کرے جو کہ تحقیق کی رو سے ناقص المعیار ہیں۔ اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر کلہوڑو کا کہنا ہے کہ انہوں نے بذات خود دال اور چالوں کو دیکھا۔ چاولوں میں کچھ اور بھی ملا ہوا تھا۔ کلہوڑو کا مزید کہنا تھا کہ یہ وینڈر کی ذمہ داری تھی کہ وہ راشن کے ٹرک کی محفوظ فراہمی کو یقینی بناتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وینڈر کو کنٹریکٹ محض اسلیے دیا گیا کیونکہ اس کی بولی بازار کے داموں سے کم تھی۔

ذرائع کے مطابق بیورو کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میر شاہنواز نے اپنے 9 اپریل کے خط میں لکھا ہے کہ زیادہ تر راشن کے تھیلے وزن میں کم تھے۔ اکثر چیزوں کا معیار ہلکا تھا، ہول سیل نرخ پر مال دیا گیا تھا۔

حکام نے تجویز پیش کی ہے کہ سامنے آنے والی رپورٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے، غیر معیاری اشیا کو معیاری اشیا کے ساتھ تبدیل کیا جائے اور بازار کے نرخوں پر مال خریدا جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، معیاری چاول کے پانچ کلو کا تھیلا بازار میں ساڑھے تین سو روپے میں دستیاب ہے جبکہ وینڈر کی جانب سے فراہم کیے گئے چاولوں کا پانچ کلو کا تھیلا ڈھائی سو روپے کا ہے۔ اس بات سے معیار کا اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں۔ اسی طرح چنے کی معیاری دال بازار میں ڈیڑھ سو روپے کلو میں دستیاب ہے لیکن وینڈر ایک سو بیس میں دے رہا ہے۔ دال مسور کا بازار میں نرخ ایک سو تیس روپے فی کلو ہے لیکن وینڈر ایک سو سولہ میں دے رہا ہے۔ جبکہ آٹا اور چینی بازار کے نرخ پر ہی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ کھانے پکانے کا تیل بازار میں چار سو لیکن وینڈر تین سو ستر میں فراہم کر رہا ہے۔ کل ملا کر بیس کلو کے تھیلے پر ایک سو اناسی روپے کا فرق سامنے آیا ہے۔

بیورو حکام کی جانب سے انتظامیہ کو جمع کروائی گئیں تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چار تعلقوں میں پندرہ تھیلوں کا معائنہ کیا گیا۔ ہر تھیلے میں سات آئٹم تھے جن میں سے کچھ مناسب اور کچھ بری حالت میں تھے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ تمام چیزوں کا الگ الگ وزن جانچنا ممکن نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر تھیلے کا اوسط وزن انیس کلو ہونا چاہیے تھا لیکن کچھ تھیلے وزن میں کم اور کچھ وزن میں زیادہ تھے۔ فراہم کی گئیں اشیا غیر معیاری بھی تھیں۔ دال چنا کھانے کے قابل نہ تھی۔ تیل، پتی اور آٹا لوکل برانڈ کے تھے اور تھرڈ گریڈ کوالٹی کے معلوم ہوتے تھے۔

کنٹریکٹر محمود راجپوت کا کہنا ہے کہ راشن کو ہنگامی بنیادوں پر کاغذی تھیلوں میں ڈالا گیا اور یہ سامان مختلف مقامات سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ راجپوت کا کہنا تھا کہ جانچ کے دوران وہ خود بھی موجود تھا اور اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کھانے کی اشیا وزن میں کم تھیں۔ راجپوت کا یہ بھی کہنا تھا فراہم کیے گئے راشن میں کرنل باسمتی چاول جنہیں بازار میں ادھوار کہا جاتا ہے فراہم کیے گئے اور ہر راشن کے تھیلے کے عوض سولہ سو تیس روپے وصول کیے گئے جو کہ بازار کا کم ترین دام ہے۔ راشن کے ان تھیلوں کی جانچ ریوینیو کے حکام اور رینجرز کے عملے نے بھی کی اور انہوں نے بھی سامان کو غیر معیاری قرار دیتے ہوئے اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر انویسٹیگیشن کی زیر نگرانی لازمی جانچ کی تجویز دی۔

اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر انویسٹیگیشن کے مطابق نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر کے احکامات کے مطابق وینڈر کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا گیا ہے اور اب گیارہ ہزار راشن کے تھیلوں کی سپلائی کی ذمہ داری یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو سونپ دی گئی ہے۔ اس بار کھانے کی اشیا معیاری ہوں گی اور فی تھیلا قیمت اٹھارہ سوروپے ہوگی۔ تاہم اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر انویسٹیگیشن کی جانب سے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی کہ سابقہ کنٹریکٹ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو کیوں نہ دیا گیا تھا۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔