کیا چند سپورٹس تجزیہ کار اور صحافی سرفراز کے لئے پی آر ایجنٹس کا کام کررہے ہیں؟

کیا چند سپورٹس تجزیہ کار اور صحافی سرفراز کے لئے پی آر ایجنٹس کا کام کررہے ہیں؟

انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ یا جنوبی افریقہ میں میچ ہو رہا ہو تو وہاں اب صرف مرد حضرات ہی کمنٹری کرتے نہیں سنائی دیتے بلکہ خواتین بھی کرکٹ پر تبصرہ نگاری کرتی ہیں۔ اس وقت پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان جو سیریز جاری ہے، اس میں بھی خاتون کمنٹیٹر کی آواز اکثر آپ کو میچ کے دوران سنائی دیتی ہوگی۔ یہ درست ہے کہ خواتین کی کرکٹ یا خواتین کمنٹری دنیا بھر میں ابھی اتنی مقبول نہیں ہے لیکن دنیا بھر میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے کی طرف آئیں۔ ان میں کوئی رمیز راجہ، ڈیوڈ لوئیڈ، ڈینی موریسن، ڈین جونز یا ماضی کے کمنٹیٹرز جیفری بائیکاٹ یا ٹونی گریگ جیسی شہرت نہیں رکھتی لیکن یہ بتدریج اس شعبے کی طرف آ رہی ہیں اور مہذب معاشروں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جانے لگا ہے۔


لیکن افسوس کہ ہم مہذب معاشروں سے کچھ سیکھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ پاکستان میں یوں تو کرکٹ ہوتی ہی نہیں۔ جو تھوڑی بہت ہوتی ہے، اس کے لئے ہمارے پاس لے دے کر ایک زینب عباس ہی ہیں جو کرکٹ سے متعلق پروگرامز اور انٹرویوز کی میزبانی کرتی ہیں۔ تاہم، کرکٹ پر کمنٹری میں پاکستان کا ایک بڑا نام عالیہ رشید کا ہے جنہوں نے گذشتہ کئی سالوں سے اس شعبے میں صرف اپنی محنت سے ایک مقام بنایا ہے۔ پاکستان میں خواتین کو آگے لانے کا کوئی کلچر موجود نہیں اور جیو نیوز اس حوالے سے بہرحال کریڈٹ کا مستحق ہے کہ اس نے روزِ اول سے عالیہ رشید کو کرکٹ پر اپنے پروگرامز کا حصہ بنایا ہے۔


لیکن اب اس میں کوئی چینل یا اس کی انتظامیہ کیا کرے کہ ہمارا معاشرہ اب بھی ان چیزوں کو سمجھنے پر تیار نہیں ہے۔ دو روز قبل پاکستان اور انگلینڈ کا میچ ابھی جاری تھا اور پاکستان کو انگلینڈ پر 244 رنز کی برتری حاصل تھی۔ اس سے ایک روز قبل جنگ گروپ اور جیو نیوز سے وابستہ سینیئر سپورٹس رپورٹر عبدالماجد بھٹی نے ایک تصویر ٹوئیٹ کی جس میں سابق پاکستانی کپتان سرفراز احمد بطور بارہویں کھلاڑی میدان میں موجود کھلاڑیوں کو جوتے فراہم کرتے دکھائی دے رہے تھے اور بھٹی صاحب نے اس پر برا مان کر لکھا تھا کہ بورڈ سابق کپتان کے ساتھ ایسا رویہ روا نہیں رکھ سکتا۔ سرفراز قومی ٹیم کا سابق کپتان ہے اور اس کو کھلاڑیوں کو پانی پلانے کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔


ٹوئیٹ کے الفاظ کچھ یوں تھے:


سرفراز احمد پاکستان کے سابق کپتان شان مسعود کے لئے پانی اور جوتے لے کر آ رہے ہیں۔ ٹیم انتظامیہ کو سینیئر کھلاڑیوں کے لئے کچھ نہ کچھ پروٹوکول بنانا چاہیے۔ یہ انتہائی زیادتی کی بات ہے، اور اس سے ٹیم سپرٹ کا فقدان ظاہر ہوتا ہے۔ 16 رکنی سکواڈ میں جونیئر کھلاڑی بھی موجود تھے۔


https://twitter.com/bhattimajid/status/1291392377844912131

پہلے تو ان کی یہ بات ہی بہت عجیب و غریب تھی۔ اگر جوتے لانا اتنی ہی بری بات ہے تو پھر جونیئر کھلاڑی بھی کسی کے جوتے کیوں اٹھائے؟ صرف سینیئر کھلاڑی کے لئے ہی یہ احترام کیوں؟ کسی کو پانی پلانا ثواب کا کام ہے، اس میں چھوٹے بڑے کی بات کہاں سے آ گئی؟ اور اگر ویرات کوہلی جیسا مایہ ناز کھلاڑی اپنی ٹیم کے لئے پانی لے کر آ سکتا ہے تو سرفراز احمد میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکتے؟


https://twitter.com/mustafa_wynne/status/1291413241806172171

لیکن پھر اسی شام جیو سوپر پر ایک اور پروگرام کیا گیا جس میں سرفراز احمد کے بارے میں تبصرہ نگاری کی جا رہی تھی۔ یاد رہے کہ یہ سیریز کا پہلا میچ تھا، سرفراز احمد کو اس میں نہیں کھلایا گیا اور ان کی جگہ محمد رضوان نے وکٹ کیپنگ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اس پروگرام کے دوران عالیہ رشید کو فون لائن پر لیا گیا تو عالیہ رشید نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ جب سرفراز ٹیم میں ہی موجود نہیں ہے، ٹیسٹ میچ ابھی جاری ہے اور محمد رضوان کی وکٹ کیپنگ پر کوئی سوالیہ نشان بھی موجود نہیں تو پھر آپ سرفراز احمد پر کیوں پروگرام کر رہے ہیں؟


نہ جانے کیوں، پر سکندر بخت کو اس تنقیدی تبصرے پر جیسے آگ لگ گئی ہو۔ وہ تو ایسے بھڑک اٹھے جیسے کسی نے ان کے پلان پر پانی پھیر دیا ہو۔ چلا کر بولے رضوان نے ایسی کون سی کارکردگی دکھائی ہے، کون سا میچ جتوا دیا ہے؟ اب یہ سوال تو ویسے ہی بے تکا تھا کیونکہ ٹیسٹ میچ ابھی جاری تھا اور پاکستان اگلے روز یہ ٹیسٹ ہارا ضرور مگر اس میں رضوان کی قطعاً کوئی غلطی نہیں تھی۔ دوسری اننگز میں ٹیم نے یوں بھی اچھا پرفارم نہیں کیا اور وکٹوں کے عقب میں کم از کم ان کی جانب سے کوئی غلطی نہیں کی گئی۔ عالیہ رشید نے انہیں جواب دیا کہ میچ تو ابھی جاری ہے۔ میزبان نے سکندر بخت کو روکا بھی کہ آپ انہیں بات مکمل کرنے دیں، لیکن وہ بضد رہے کہ انہیں بتایا جائے کہ رضوان نے کون سے میچ وننگ پرفارمنس دی ہے اور میں عالیہ رشید سے شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ عالیہ رشید نے انہیں یاد دلایا کہ وہ بھی ان سے اختلاف ہی کر رہی ہیں کیونکہ سرفراز احمد ٹیم میں موجود نہیں اور اس وقت رضوان اور ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو زیرِ بحث ہونا چاہیے نہ کہ ایک ایسے کھلاڑی کو جو کہ ٹیم میں موجود ہی نہیں اور اگر آپ لوگ میچ پر پروگرام کر رہے ہیں تو کم از کم ایمانداری سے اس کا تجزیہ تو کریں۔


اس پر سکندر بخت مزید سیخ پا ہو گئے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ہم بدنیتی سے پروگرام کر رہے ہیں؟


سب سے پہلے تو سکندر بخت کو تہذیب کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ تحمل سے عالیہ رشید کی تنقید سنتے اور جواب دیتے۔ لیکن عالیہ رشید کا تجزیہ انہیں یارکر کی طرح بالکل پنجوں میں آ کر لگا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا کوئی منطقی جواز تراشنا ممکن تھا ہی نہیں کہ جب ایک کھلاڑی کھیل رہا ہے، اپنے کام میں کوئی غلطی بھی نہیں کر رہا تو یہاں زیرِ غور ایک ایسا کھلاڑی کیوں ہے جو ابھی ٹیم کا حصہ ہی نہیں؟ اس پر پروگرام کیوں کیا جا رہا ہے؟ بھٹی صاحب ٹوئٹر پر اس کے خود ساختہ حقوق کی جنگ کیوں لڑ رہے ہیں؟ کیا ہو گیا اگر سرفراز احمد ٹیم سے باہر ہو گئے ہیں تو؟ ماضی میں راشد لطیف پاکستان کے بہترین وکٹ کیپر تھے۔ معین خان ایک شاندار بلے باز بھی تھے۔ یہ دونوں درجنوں مرتبہ ٹیم سے باہر بھی ہوئے، ٹیم میں واپس بھی آئے۔ تو کون سی قیامت آئی تھی؟ اگر سرفراز کی کارکردگی اچھی نہیں رہی اور انہیں کپتانی سے ہٹایا گیا ہے، ٹیم سے باہر بٹھایا گیا ہے تو ان کے پاس موقع ہے کہ وہ فرسٹ کلاس میں اچھی کارکردگی کے ذریعے ٹیم میں دوبارہ جگہ بنا سکتے ہیں۔ اس ٹیم کے بھی وہ ساتھ ہیں۔ کسی بھی موقع پر اگر منیجمنٹ کو ایسا لگا کہ رضوان کی کارکردگی درست نہیں تو اس کی جگہ سرفراز کو واپس ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ٹی وی چینلز کو لابیئنگ فرمز کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے۔


ماضی میں جیو نیوز پر کامران اکمل کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا اور جب تک ٹیم سے ان کا پتہ صاف نہیں ہو گیا تب تک جیو نیوز نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سکندر بخت ہوں، یحییٰ حسینی یا عبدالماجد بھٹی، انہیں کامران اکمل کے فرسٹ کلاس میں ہزاروں رنز کبھی اس قابل نہیں لگتے کہ ان کی ٹیم میں واپسی ممکن نہ ہونے پر سوال اٹھایا جائے۔ کامران اکمل کے بعد ان کے بھائی عمر اکمل کے ساتھ بھی یہی رویہ دیکھنے میں آیا۔ ایسا نہیں ہے کہ کامران اکمل وکٹوں کے پیچھے غلطی سے پاک تھے۔ نہ ہی عمر اکمل کی کارکردگی ایسی شاندار تھی کہ ان کی شان میں قصیدے کہے جائیں۔ لیکن یہ بھی کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کچھ صحافیوں کی عمر اکمل پر خصوصی نظرِ کرم رہی اور ان کی ہم نصابی سرگرمیوں کو یوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا کہ بالآخر ان کو بھی کھڈے لائن لگا کر ہی ان کی جان چھوڑی گئی۔


اور اب عالیہ رشید یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ آخر آپ اس وقت سرفراز احمد کو موضوعِ بحث بنائے ہوئے ہی کیوں ہیں تو سکندر بخت بدتہذیبی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر تنقید اتنی ہی بری لگتی ہے تو پھر موضوع کا انتخاب کرتے ہوئے یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ آپ کا پلیٹ فارم ایک نیوز چینل ہے۔ اس کا کاروبار خبر فراہم کرنا اور خبر پر تجزیہ کرنا ہے۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، اس کام کے لئے مہذب معاشروں میں PR agencies ہوا کرتی ہیں۔