پیارے پیارے بچوں
جیتے رہو
میری
تاریخِ ولادت یاد رکھنے اور اس قدر اہتمام سے ڈائمنڈ جوبلی منانے کا شکریہ۔ تمہیں یاد ہوگا کہ میری بنیاد ایک برطانوی افسر اور اس وقت کے گورنر سندھ سر ہیو ڈاؤ نے دس دسمبر 1945ء کو رکھی تھی ۔ مقصد یہی تھا کہ یہاں سے بچے طب کی تعلیم حاصل کریں اور سندھ کے عوام صحت کی بہترین سہولیات سے مستفید ہوں۔ دو سال میں ہی ایک نیا ملک پاکستان جنم پا گیا میں کیوں کہ اس سے عمر میں دو سال بڑا تھا اس لیے مجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہمیشہ دامن گیر رہا۔ پاکستان اور میرا بچپن اور لڑکپن سب ساتھ کھیلتے گزرا۔ لوگ کہتے ہیں ہم دونوں میں بہت مشابہت ہے اور ہم دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔
میرے نونہالوں
رشتے، درخت، قومیں اور تعلیمی ادارے جتنے پرانے ہوں اتنے ہی بہتر، معتبر، مضبوط اور مستحکم سمجھے جاتے ہیں۔ میں جامعہ الازہر، آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹی کی طرح اتنا بوڑھا تو نہیں لیکن مجھ میں اور کیمبرج یونیورسٹی میں عمر کے تفاوت کے باجود ایک قدر مشترک ضرور ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کو ان طلباء نے قائم کیا تھا جو آکسفورڈ میں کفر کے فتوے لگنے کے بعد جان بچا کر بھاگے تھے اور دریائے کَیم کے کنارے آبسے تھے۔ میرے پہلوٹی کے بچوں میں بھی کیمبرج کی بنا ڈالنے والوں کی طرح بے خوفی، روشن خیالی اور عام روش سے بغاوت کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے آتے ہی مطالبہ کردیا کہ مزید اسکول کالج کھولے جائیں، تعلیمی اداروں کی فیس اور کتابوں کی قیمتیں کم کی جائیں، صحت کی سہولیات عام ہوں، جگہ جگہ لائبریریاں کھولی جائیں اور پوائنٹ بسیں چلائی جائیں۔ یہ بڑے ہی سرفروش بچے تھے انہوں نے 1953ء میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تم شاید یقین نہ کرو گے کہ یہ بچے تعلیم کے ساتھ محنت مزدوری بھی کرتے تھے۔ ان کی بڑی تعداد اندھیرے گھروں میں رہتی تھی اور یہ اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پڑھتے تھے۔
میرے بطن سے نکلے مسیحاؤں
جدید طب کی بنیاد مغرب میں رکھی گئی ہے۔ نت نئی معلومات اور اعلی تربیت حاصل کرنے کے لئے میرے سب سے بڑے بچوں نے برطانیہ کا رُخ کیا۔ یہ بچے پانچ سے دس سال وہاں رہ کر واپس آجاتے۔ واپسی میں یہ سب بچے گوروں کی طرح پابندیء وقت کی عادت، سوٹ، ٹائی، ہیٹ، سگار یا پائپ ساتھ لانا نہ بھولتے، بچیاں بغیر آستین کے بلاؤز زیب تن کرتیں۔ کچھ اپنے ساتھ میرے لئے گوری بہوئیں بھی لیتے آئے۔ یہ وہ بچے تھے جنہوں نے پورے پاکستان میں طبی تخصیصات کی بنیاد رکھی۔ ان کا معاشرے میں بہت بلند مقام ہوا۔ یہ مال و دولت میں کھیلے اور زمانے کے امراء، شرفاء اور اہل حَکم ان سے دوستی کو باعث افتِخار سمجھتے۔
میرے راج دلاروں
اس دوران ملک میں جتنے انقلابات آئے ان میں میرا کردار بہت نمایاں تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کا صدارتی الیکشن ہو یا ایوب خان کو گھر بھیجنے کی ٹحریک میرے ذکر کے بغیر کوئی
تاریخ نہیں لکھی جاسکتی۔ میری کینٹین میں قدم رکھنے سے ذوالفقار علی بھٹو اتنے قد آور رہنما بن گئے کہ اپنی موت کے اتنے برس بعد بھی آج تک انہیں زندہ سمجھا جاتا ہے۔
میرے آنگن کے گلاب، موتیا اور چنبیلی
تم نے پاکستان میں ایک چھوٹا سا مثالی پاکستان بنائے رکھا جس میں خالص جمہوری روایات کی پاسداری ہوتی۔ دائیں اور بائیں کی شدید تفریق کے باوجود آپس میں بحث مباحثے اور افہام و تفہیم سے معاملات اور مسائل حل کئے جاتے۔ اپنی اولاد کے سیاسی رحجانات پر مجھے کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا بلکہ کبھی کبھی تو تم گل گوتھنوں کی معلومات اور سرگرمیوں پر میرا اپنا سینہ فخر سے پھول جاتا۔ اس جمہوری دور کا اختتام بالآخر فروری 1984ء کو پوگیا۔
میرے جگر کے ٹکڑوں
جب مشرق وسطٰی میں تیل کی دولت آگئی اور وہاں کے بدو اونٹ سے اتر کر شیورلیٹ میں جا بیٹھے تو تم ہی تھے جنہوں نے جلتے صحراؤں میں ان کا نظام صحت استوار کیا۔ تم میں سے کچھ لیبیا، عراق اور ایران گئے تو کچھ نائجیریا جا پہنچے لیکن ان سب کی نیت یہی ہوتی تھی کہ کچھ پیسے بچانے کے بعد واپس اپنے وطن آجائیں گے۔ 1982ء کے بعد تم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دریافت کرلیا۔ یہی وہ بدقسمت گھڑی تھی جب تم نے قصد کرلیا کہ اپنے بڑے بھائی بہنوں کی طرح واپس آ کر اہل وطن کی خدمت نہیں کرو گے بلکہ وہیں مستقل سکونت اختیار کرلو گے ۔
میری آنکھوں کے نور
مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تمہاری اس ہجرت کے پیچھے وہی عوامل تھے جو کسی بھی انسانی ہجرت کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں یعنی اپنی جنم بھومی میں روزگار کی کمی، سخت معاشی اور سماجی مسائل، سیاسی بے یقینی، لاقانونیت، تعلیمی اور طبی سہولیات کی نایابی اور مستقبل سے مایوسی۔
سات سمندر پار جاتے ہوئے تمہاری آنکھوں سے گرتے خون کے آنسو صرف میں نے دیکھے ہیں۔ سچ ہے کہ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں۔ ایک صرف امریکہ ہی کیا اس عرصے میں جو بھی جہاں گیا اس کا مقصد وہیں رہنا تھا۔
میرے سینے پر سجے تمغوں
تمہیں کیسے بتاؤں کہ مجھے کتنی فکر لگی رہتی ہے جب تم میں سے کوئی عرب ممالک میں بدسلوکی اور ناقدری کا سامنا کرتا ہے۔ جب تمہیں کسی مغربی ملک میں امتیازی سلوک اور نسل پرستی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کاش میں تمہیں اپنے جگر سے رِستے وہ زخم دکھا سکتا جو اس وقت لگے جب کچھ عرصے پہلے تمہیں سعودیہ اور امارات سے فارغ کیا گیا تھا۔
میرے سورج، چاند اور تاروں
مجھ سے زیادہ کس کو علم ہوگا کہ تم سب ایک شدید شناخت کے بحران کا شکار ہو۔ کبھی تم یہ حلیہ بناتے ہو کبھی وہ، کبھی تم ایک زبان سیکھتے ہو کبھی دوسری۔ پتہ نہیں کیا کیا داستانیں اپنے بچوں کو سنا کر انہیں بھی اسی عذاب میں دھکیل دیتے ہو جس سے خود بھی گزرتے ہو۔
میرے دل کی دھڑکن
پاکستان اس پورے خطہ میں صحت پر اپنی قومی آمدنی کا سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ ہمارے ملک میں صحت عامہ سے یہی لاپروائی ہے جس کے نتیجے میں ڈاکٹروں کا معیار زندگی مسلسل گرتا جارہا ہے۔ ان کے لئے باعزت روزگار کے دروازے بند ہورہے ہیں۔ ان کے مفادات کا محافظ نہ کوئی انتظامی ادارہ ہے نہ کوئی ٹریڈ یونین۔ میرے کتنے ہی بچوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر مارا جاچکا ہے۔ سروس سٹرکچر کا مطالبہ کرنے والے بچوں کو سرِعام گالیوں اور ڈنڈوں سے نوازا گیا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ ڈاکٹری کرنے کے بجائے پکوڑے بیچیں۔ حالیہ کرونا بحران کے دوران صرف حفاظتی لباس مانگنے پر ان پر شدید تشدد کیا گیا، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا گیا، جیلوں میں ٹھونسا گیا اب میرے بچے بغیر کسی حفاظت اور تربیت کے عوام کی خدمت کرتے ہیں اور خود کو ملک الموت کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا
میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہے۔ مزید لکھنا مشکل ہے۔ بس تم سے ہاتھ جوڑ کر یہی گذارش ہے کہ اپنی ولدیت میں لکھا میرا نام یاد رکھنا اور مصیبت کی گھڑی میں اپنے مجبور و بے سہارا بھائی بہنوں کا خیال رکھنا۔
فقط
دنیا بھر میں تمہاری پہچان
(ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز)