مارچ کے وسط میں ایوان بالا کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ ایوان بالا کے الیکشن میں ووٹنگ کی بحائے شو آف ہینڈ کا طریقہ رائج کیا جائے اس سے ہارس ٹریڈنگ روکنے میں کامیابی ہو گی،ااور اراکین اسمبلی کی خرید وفروخت کو روکا جا سکے گا۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حکومت کی اس پٹیشن کی محالفت کر رہی ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری شو آف ہینڈ کی حمایت کر چکے ہیں مگر اب چونکہ یہ پٹیشن تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے دائر کی گئی ہے لہذا اسکی مخالفت کر رہے ہیں اب دیکھیں عدالت عالیہ کی طرف سے اس پر کیا فیصلہ آتا ہے؟
ایوان بالا ہمیشہ سے ٹیکنو کریٹس کا ایوان ہوتا ہے اور پوری دنیا کے پارلیمانی نظام حکومت میں سینیٹ میں محتلف شعبہ جات کے ماہرین کو نامزد کیا جاتا ہے جس سے اس ایوان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے وطن عزیز میں یہ روایت اب دم توڑتی نظر آرہی ہے شاہد ہم جمہور کی تربیت ابھی تک پوری طرح حاصل نہیں کر پائے۔
اور جمہوری اقدار سیکھنے کی بحائے اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے ابھی تمام سیاسی جماعتوں کی متوقع امیدوارں کی جو ابتدائی فہرست سامنے آئی ہیں ان میں کوئی بھی امیدوار آپ اپنے شعبہ کا ماہر نہیں سوائے بابر اعوان کے جو ماہر قانون دان ہیں۔
کسی جماعت نے کوئی ادیب دانشور،فنکار،ماہر تعمیرات،اقتصادیت، کھلاڑی ،مصور ،اور صحافی کو نامزد نہیں کیا وہ روایتی چہرے ہیں،جن کسی قسم کی بہتری کی امید نہیں اور وہ لوگ اس ایوان بالا کی توقیر میں اضافے کا باعث ہرگز نہیں بنے گے۔ دس بارہ سال قبل جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تب اس وقت کے صدر پاکستان اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے لاہور کے ایک دانشور مصور پروفیسر اعجاز الحسن کو سنیٹر بنانے کی بات کی مگر انکی اپنی پارٹی کے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نے اسکی مخالفت کی اور ملتان کے ایک روایتی چہرے کو سنیٹر بنوایا ۔ آج پیپلز پارٹی اسی یوسف رضا گیلانی کو چیئرمن سنیٹ بنوانے کی تگ دو کر رہی ہے ہی وجہ ہے آج تک پاکستان کے پارلیمانی نظام کا یہ مقدس ایوان اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکتا اور سنیٹ الیکشن کے دروان بد ترین ہارس ٹریڈنگ کا شکار ہوتا ہے۔
آخر میں لاہور شہر کے مہنگے ترین منصوبے اورنج لائن ٹرین کے حوالے سے بات ہوتی جائے جو پنجاب کے دس سالہ خود ساختہ جمہوری مغلیہ عہد کی ایک یادگار ہے اب تک کرائے کی مد میں 28 کروڈ روپے وصول ہوئے ہیں اور بجلی کا بل 35 کروڑ روپے آیا ہے اسکے علاوہ عملے کی تنخواہیں الگ یہں۔ یہ مہنگا ترین منصوبہ چین کے ایک بینک ایگزم سے 260 ارب روپے کے قرضے سے بنایا گیا اور اس وقت کے جمہوری مغلیہ دربار کے ایک نو رتنوں میں سے ایک وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پنجاب اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ہم نے صحت اور تعلیم کیلئے وقف کی گی رقم سے بھی پیسے اس منصوبے میں ڈالے تھے موجودہ حکومت اس منصوبہ پر دس ارب کی سالانہ سبسڈی دے رہی ہے اسکے باوجود یہ منصوبہ خسارے کا شکار ہے اب مسافروں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے، جسکی وجہ سے کرایہ چالیس روپے سے کم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، یعنی مزید سبسڈی دی جائے گی ساتھ ساتھ چینی بینک کو قرضے کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔ میٹروبس کی موجودگی اورنج لائن ٹرین کو شروع کرنا ایک غلط فیصلہ تھا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چونکہ یہ دس سالہ مغلیہ سلطنت کی نشانی ہے جب اس طرح کے منصوبے شروع کرنے سے پہلے اسمبلی تو دور کی بات ہے کابینہ میں بھی ان پر بحث نہیں کی جاتی تھی بس ظل سبحانی کی منشا ہی سب کچھ ہوتی تھی ،اب یہ گلے پڑا ڈھول سب کو بحانا پڑے گا۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔