الیکشن میں جانے سے قبل عمران خان صاحب کو "میثاقِ جمہوریت" اور "مذاکرات" سے گزارتے ہوئے ان کی تعلم و تربیت کی جائے

الیکشن میں جانے سے قبل عمران خان صاحب کو

پی ٹی آئی کے 2014ء کے دھرنے کے شروع میں ہی اسلام آباد پہنچنے پر پہلی تقریر میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے پوری قوم کے سامنے عہد کیا تھا کہ "میں اپنی قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔" لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک انہوں نے مسلسل اتنے جھوٹ بولے اور یوٹرن لیے ہیں کہ شاید ورلڈ ریکارڈ ان کے نام ہو سکتا ہے۔


            2014ء کے دھرنے کے دوران ہی انہوں نے ریحام خان سے خفیہ شادی رچا لی، اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ لیکن جب میڈیا نے بھانڈا پھوڑ دیا تو عوام کے لیے نکاح کی جعلی تقریب رکھی گئی تاکہ فوٹو سیشن کروایا جا سکے۔ خیر چھوڑیں یہ تو ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ تھا اگرچہ ایک قومی لیڈر کا کوئی بھی معاملہ ذاتی نوعیت کا نہیں ہوتا کیونکہ ایک لیڈر قوم کا رہنما ہوتا ہے جس کے نقشِ قدم پر چلنے کا پوری قوم عہد کرتی ہے۔


            حکومت ملنے سے قبل خان صاحب کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑا تو خودکشی کر لوں گا، لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے آئی ایم ایف سے انتہائی کڑی شرائط پر قرضے لے کر پورے ملک کو معاشی بحران کا شکار کر ڈالا۔


            اقتدار میں آنے سے پہلے خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے کہ انہیں سیاست میں بالکل مداخلت نہیں کرنی چاہے۔ جبکہ خود اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھی کے ذریعے ہی مسند اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں تک کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کے متعلق بھی اپنے آپ کو نردوش بتاتے ہیں اور اس کا سہرا جنرل باجوہ کے سر باندھتے ہیں۔


            ایک امریکی صحافی کو دیئے جانے والے انٹرویو میں Absolutely Not کہنے کو امریکہ کو دو ٹوک جواب دینا قرار دے کر خوب پوائنٹ اسکورنگ کرنے کی کوشش کی کہ میں "کبھی اپنی قوم کو کسی کے سامنے نہیں جھکنے دوں گا۔" بلکہ انہوں نے اپنی حکومت کے گرائے جانے کو اسی "ایبسولوٹلی ناٹ" پر امریکی سائفر کے ذریعے دی جانے والی سزا قرار دیا۔ لیکن جب جب امریکی شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا تو ان کے آگے بچھ بچھ کر شرمندگی کا اظہار کیا بلکہ اپنے اس بیانیے کو ایک مقامی سیاسی چال قرار دیا۔


عمران خان نے ریاستِ مدینہ کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹا لیکن اس پر کس حد تک عمل پیرا رہے، اس کا جواب بہتر ہو گا کہ ایک مولانا طارق جمیل کو چھوڑ کر دیگر علمائے کرام سے پوچھ لیا جائے۔


خیر، اپنے دورِ اقتدار میں خان صاحب اور ان کی تحریکِ انصاف کی "صاف چلی اور شفاف چلی" کے کیا ہی کہنے تھے۔ اب الیکشن کے لیے چلی جانے والی چال کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اپنی حکومتوں کو خود ہی گرا کر اب بھی کلین سویپ کے خواب دیکھا کرتے ہیں۔ لیکن جب ان کی خواہش کے مطابق فوری الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے تو یوٹرن لے کر دونوں اسمبلیوں کی بحالی کے لیے کوششیں کرتے بھی نظر آتے ہیں۔


خان صاحب بڑے دھڑلے سے کہا کرتے تھے کہ میں ہر طرح کے مخالفین سے مذاکرات کر لوں گا لیکن ان "چوروں" سے کبھی مذاکرات نہیں کروں گا۔ لیکن جب کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو جن کے خلاف ہر طرح کی طعن و تشنیع کرتے رہے ہیں، ان ہی سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف بھی ہیں اور اپنے لیے فیس سیونگ دلوانے کے لیے بھی فوج ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔


الغرض، عمران خان کی سیاست انتہائی جھوٹ اور وعدہ خلافی پر مبنی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود نوجوانوں کی ایک معقول تعداد ابھی بھی ان کی کرشماتی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہے اور انہیں قوم کا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ ان کی شخصیت کا جادو ان نوجوانوں کو خان صاحب کے مسلسل جھوٹ اور غلط بیانیاں سامنے آنے کے باوجود ان سے متنفر نہیں کرتا بلکہ انہیں خان کی سیاسی چالیں قرار دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو پورا یقین ہے کہ جو کچھ بھی ہے خان بندہ ایماندار ہے۔ چاہے اس کے زیرِ سایہ بزدار اور گوگی بٹ اور دیگر کی کرپشن کے قصہ ہائے چہار درویش زبان زدِعام کیوں نہ ہوں، لیکن "خان بندہ ایماندار ہے"۔


مزے کی بات یہ ہے کہ خان کو ایماندار بندہ سمجھنے والے کچھ لوگ ہماری عدلیہ میں بھی پائے جاتے ہیں جو آئین و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خان کو ایک بار پھر وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کی طرف سے جلد از جلد الیکشن کروانے کے فیصلے صادر کیے جا رہے ہیں۔


دوسری طرف تحریک انصاف کے ٹکٹ میرٹ پر فروخت ہونے کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آ گئی ہے۔ جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کو تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی فروخت پر bargaining  کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ مذکورہ آڈیو لیک تحریک انصاف میں ایک طرف تو غیرمنصفانہ ٹکٹس کی تقسیم کا راز فاش کر رہی ہے دوسری طرف جماعت کے "صاف چلی شفاف چلی" نعرے کا پول بیچ چوراہے کھول رہی ہے۔


اندریں حالات عمران خان اور تحریکِ انصاف کے زور دینے پر قبل از وقت یا فوری انتخابات کروا بھی دیئے جائیں تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ خان صاحب الیکشن کے نتائج کو تسلیم بھی کر لیں گے۔ (سوائے اس صورت کے کہ انہیں کسی طور دو تہائی اکثریت سے جتوا دیا  جائے)۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان اپنی ہار کی صورت میں الیکشن کے نتائج کو کسی صورت تسلیم نہ کریں گے اور دھرنے اور احتجاجی سیاست کا ایک اور دور شروع ہو جائے گا۔ لٰہذا بہتر ہوگا کہ الیکشن میں جانے سے قبل عمران خان صاحب کو "میثاقِ جمہوریت" اور "مذاکرات" سے گزارتے ہوئے ان کی تعلم و تربیت کی جائے تاوقتیکہ خان صاحب میں سیاست بلوغت کے آثار نمایاں ہوں۔

حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔ آج کل بطور پولیٹیکل رپورٹر ایک بڑے نجی میڈیا گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔